Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 17
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ١ؕ قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَیْئًا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّهْلِكَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا١ؕ وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا١ؕ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
لَقَدْ كَفَرَ : تحقیق کافر ہوگئے الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : جن لوگوں نے کہا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ هُوَ الْمَسِيْحُ : وہی مسیح ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم قُلْ : کہدیجئے فَمَنْ : تو کس يَّمْلِكُ : بس چلتا ہے مِنَ اللّٰهِ : اللہ کے آگے شَيْئًا : کچھ بھی اِنْ اَرَادَ : اگر وہ چاہے اَنْ يُّهْلِكَ : کہ ہلاک کردے الْمَسِيْحَ : مسیح ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم وَاُمَّهٗ : اور اس کی ماں وَمَنْ : اور جو فِي : میں الْاَرْضِ : زمین جَمِيْعًا : سب وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مُلْكُ : سلطنت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَمَا : اور جو بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان يَخْلُقُ : وہ پیدا کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قدرت والا
بیشک ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا اللہ تو وہی مسیح ابن مریم ہے۔ پوچھو، کون اللہ سے کچھ اختیار رکھتا ہے اگر وہ چاہے کہ ہلاک کردے مسیح ابن مریم کو، اس کی ماں کو اور جو زمین میں ہیں ان سب کو۔ اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، سب کی بادشاہی۔ وہ پیدا کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۭ قُلْ فَمَنْ يَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَـيْـــًٔـا اِنْ اَرَادَ اَنْ يُّهْلِكَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّهٗ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۭوَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۔ پال کے عقیدے کی اصل روح : اب یہ نصاری کے نقض عہد کی ایک مثال بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے تمام عہدومیثاق کی جو جڑ ہے یعنی توحید، اسی پر کلہاڑا رکھ دیا اور اللہ تعالیٰ کے بجائے مسیح ابن مریم کو خدا بنا بیٹھے۔ موجودہ مسیحیت جس کا بانی پال ہے، اصلاً تو حلول و اتحاد کے عقیدے پر مبنی ہے یعنی پال کے نزدیک مسیح کی شکل میں خدا ہی نے ظہور کیا ہے لیکن بعض اعتراضات سے بچنے کے لیے، جیسا کہ ہم نے سورة نساء کی تفسیر میں اشارہ کیا ہے، اس کو اس نے اس چیستاں کی شکل میں پیش کیا ہے، جس کو تثلیث کہتے ہیں۔ گویا حلول اس عقیدے کی روح ہے اور تثلیث اس کی تعبیر، قرآن نے کہیں اس گمراہی کی روح کو واضح کیا ہے، کہیں اس کی معروف تعبیر سے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پال کا اصل مقصود مسیح کو خدا ثابت کرنا تھا۔ اس کے لیے اس نے ان کی خارق عادت ولادت اور ان کے کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہونے سے مواد فراہم کیا لیکن انجیلوں میں چونکہ باپ اور روح القدس کا بھی ذکر تھا اس وجہ سے اسے یہ محنت کرنی پڑی کہ الوہیت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی ایسی تعبیر اختیار کرے کہ ان سب کے لیے اس میں کوئی نہ کوئی جگہ نکل آئے۔ لیکن یہ سارا گورکھ دھندا تو بس چند بال کی کھال ادھیڑنے والوں کے ذہن میں یا چند چیستاں قسم کی کتابوں کے اندر بند رہتا ہے، عام ذہن تو خلاصہ پسند ہوتا ہے، وہ ان موشگافیوں میں کہاں پڑتا ہے۔ چناچہ عوام نے اس سارے افسانے میں سے صرف اتنی بات اپنے ذہن میں راسخ کرلی کہ مسیح خدا ہیں۔ یہی حال عربوں کا ہوا۔ انہوں نے بھی خدا کے ساتھ دوسروں کو جو شریک کیا تو اپنے ایک مزعومہ فلسلفے کے تحت کیا لیکن پھر صورتیں اور مورتیں خدا بن گئیں اور خدا یا تو بالکل غائب ہوگیا یا اس طرح پس منظر میں چھپا دیا گیا کہ اس کو ہونا اور نہ ہونا برابر ہوگیا۔ اس پر تفصیلی بحث انشاء اللہ مکی سورتوں میں آئے گی۔ نصاری پر اظہار غضب : فَمَنْ يَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَـيْـــًٔـا کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے ارادے میں کوئی حائل و مانع نہیں ہوسکتا۔ مثلاً لاستغرن لک وما املک لک من اللہ من شیء (میں آپ کے لیے خدا سے مغفرت مانگوں گا، لیکن آپ کے معاملے میں خدا کے کسی فیصلے میں کوئی دخل نہیں رکھتا) ، یہ مسیح کو خدا بنانے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اظہارِ غضب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نادانو، یہ کس قسم کی باتیں کرتے ہو، کیسا مسیح، کیا ان کی ماں اور کیا یہ ساری مخلوق، خدا سب سے بےنیاز اور مستغنی ہے۔ سب کو وجود اسی نے بخشا ہے اور اگر وہ ان سب کو فنا کردینا چاہے تو کون ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے۔ آسمان و سمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب خدا ہی کی ملکیت ہے۔ کوئی نہیں ہے جو اس میں اس کا شریک ہو۔ وہ جو چاہے، جس طرح چاہے اور جتنی مقدار میں چاہے پیدا کرتا اور پیدا کرسکتا ہے۔ کسی کا بن باپ کے پیدا ہوجانا اس بات کی دلیل نہیں ہوجاتا کہ وہ خدا بن گیا یا خدائی میں شریک ہوگیا۔ خدا کسی کو چاہے تو بن باپ کے بھی پیدا کرسکتا ہے بلکہ ماں اور باپ دونوں کے بغیر بھی پیدا کرسکتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
Top