Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 48
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مُهَیْمِنًا عَلَیْهِ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّ١ؕ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَۙ
وَاَنْزَلْنَآ : اور ہم نے نازل کی اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : سچائی کے ساتھ مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالی لِّمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے مِنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب وَمُهَيْمِنًا : اور نگہبان و محافظ عَلَيْهِ : اس پر فَاحْكُمْ : سو فیصلہ کریں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِمَآ : اس سے جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ وَ : اور لَا تَتَّبِعْ : نہ پیروی کریں اَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشات عَمَّا : اس سے جَآءَكَ : تمہارے پاس آگیا مِنَ : سے الْحَقِّ : حق لِكُلٍّ : ہر ایک کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیا ہے مِنْكُمْ : تم میں سے شِرْعَةً : دستور وَّمِنْهَاجًا : اور راستہ وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہتا لَجَعَلَكُمْ : تو تمہیں کردیتا اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : واحدہ (ایک) وَّلٰكِنْ : اور لیکن لِّيَبْلُوَكُمْ : تاکہ تمہیں آزمائے فِيْ : میں مَآ : جو اٰتٰىكُمْ : اس نے تمہیں دیا فَاسْتَبِقُوا : پس سبقت کرو الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اِلَى : طرف اللّٰهِ : اللہ مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا جَمِيْعًا : سب کو فَيُنَبِّئُكُمْ : وہ تمہیں بتلا دے گا بِمَا : جو كُنْتُمْ : تم تھے فِيْهِ : اس میں تَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے
اور ہم نے تمہاری طرف کتاب اتاری حق کے ساتھ، مصداق اس سے پیشتر سے موجود کتاب کی اور اس کے لیے کسوٹی بنا کر، تو ان کے درمیان فیصلہ کرو اس کے مطابق جو اللہ نے اتار اور اس حق سے ہٹ کر، جو تمہارے پاس آچکا ہے، ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک ضابطہ اور طریقہ ٹھہرایا۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن اس نے چاہا کہ اس چیز میں تمہاری آزمائش کرے جو اس نے تم کو بخشی تو بھلائیوں کے لیے ایک دوسرے پر سبقت کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کا پلٹنا ہے تو وہ تمہیں آگاہ کرے گا اس چیز سے جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو
تفیسر آیت 48۔ تا 50:۔ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۭ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ۭوَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ ۭ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ۔ وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكَ ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّصِيْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ۔ اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ ۭوَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۔ حاملین قرآن کی ذمہ داری : اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ بعینہ انہی ذمہ داریوں اور اسی عہد و میثاق کے ساتھ یہ کتاب تمہارے حوالے کی جا رہی ہے تو تم ان کے درمیان بہرحال اللہ کی اس کتاب کے مطابق ہی فیصلہ کرو۔ ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ اس سیاق میں " بالحق " کے معنی قول فیصل کے ہوتے ہیں۔ اہل کتاب نے اپنے صحیفوں کو تحریفات کے ذریعے سے حق و باطل دونوں کا مجموعہ بنادیا تھا۔ قرآن نے اللہ کا دین تمام آمیزشوں اور تحریفات سے پاک کر کے بالکل ٹھیک ٹھیک پیش کردیا۔ مصدقا کی تاویل مختلف مقامات میں گزر چکی ہے۔ " مہیمن " کا مفہوم : مھیمن اصل میں ما امن ہے۔ دوسرا ہمزہ ی سے اور پہلا ہ سے بدل گیا ہے۔ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوا ہے اور قرآن کی صفت کے طور پر بھی۔ مہیمن الطائر علی فواخہ کا مطلب یہ ہوگا کہ پرندہ اپنے بچوں کے اوپر پر پھیلائے ہوئے منڈلا رہا ہے، گویا ان کو اپنی حفاظت میں لیے ہوئے ہے۔ ھیمن فلان علی کذا، فلان اس چیز کا محافظ اور نگران بن گیا۔ اپنے سے سابق صحیفہ پر قرآن کے مھیمن ہونے کے معنی یہ ہیں کہ قرآن اصل معتمد نسخہ کتاب الٰہی کا ہے اس لیے وہ دوسرے صحیفوں کے حق و باطل میں امتیاز کے لیے کسوٹی ہے۔ جو بات اس کسوٹی پر کھری ثابت ہوگی وہ کھری ہے، جو اس پر کھوٹی ثابت ہوگی، وہ محرف ہے۔ یہاں " الکتاب " کا لفظ واحد استعمال کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن سے پہلے اصل شریعت کے اعتبار سے کتاب الٰہی کی حیثیت درحقیقت تورات ہی کو حاصل ہے، بقیہ صحائف اس کے اجزا و فروع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ عَمَّا جَاۗءَكَ مِنَ الْحَقِّ۔ قرآن سے متعلق یہ اسی طرح کا عہد و میثاق آنحضرت ﷺ اور آپ کے واسطہ سے آپ کی امت سے لیا گیا ہے جس طرح کا عہد تورات اور انجیل سے متعلق ان کے حاملین سے لیا گیا اور جس کا ذکر اوپر گزرا۔ مطلب یہ ہے کہ اب یہی کتاب حق و باطل کی کسوٹی اور احکام الٰہی کا قابل اعتماد مجموعہ ہے تو تم لوگوں کے درمیان اسی کے مطابق فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آچکا ہے، ہرگز اس سے منحرف ہو کر ان منافقین اور یہود کی خواہشات و بدعات کی پیروی نہ کرنا جو اپنی خواہشوں کے مطابق فیصلے حاصل کرنے کے لیے تمہارے پاس آتے ہیں۔ یہ بات یہاں بغیر کسی اظہار کے ظاہر ہے کہ اس حق کو چھوڑ کر کسی باطل کے مطابق معاملات کے فیصلے کرنا اسی طرح کفر، ظلم اور فسق ہے جس طرح اوپر تورات و انجیل سے متعلق مذکور ہوا۔ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا ۭوَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَآ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ۔ اس ٹکڑے کے صحیح وقع و محل اور اس کے صحیح فمہوم کو سمجھنے کے لیے بقرہ کی مندرجہ ذیل آیات پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ یہ دونوں بالکل ایک ہی موقع و محل کی آیات ہیں اور ایک ہی حقیقت کو واضح کر رہی ہیں۔ " وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ (145) الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (146) الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (147) وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَمَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (148): اور اگر تم ان اہل کتاب کے پاس ہر قسم کی نشانیاں لا کر رکھ دو جب بھی تمہارے قبلہ کی یہ پیروی نہیں کریں گے اور نہ تم ان کے قبلہ کی پیروی کرنے کے، اور نہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے قبلہ کی پیروی کرنے کا۔ اور اگر تم ان کی خواہشوں کی پیروی کروگے بعد اس کے کہ تمہارے پاس علم حق آچکا ہے تو تم اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے بن جاؤگے۔ جن کو ہم نے کتاب عطا کی وہ اس کو پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ البتہ ان میں سے ایک گروہ حق کو جانتے بوجھتے چھپاتا ہے۔ یہی حق ہے تیرے رب کی جانب سے تو تم شک کرنے والوں میں سے نہ بنو، ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے، وہ اسی کی طرف رخ کرے گا تو تم بھلائیوں کی سمت میں سبقت کرو، جہاں کہیں بھی تم ہوگے اللہ تم سب کو اکٹھا کرے گا۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے " (145۔ 148) جس طرح یہاں سیاق وسباق دلیل ہے کہ ولکل وجہۃ ھو مولیھا فاستبقوا الخیرات کا ٹکڑا، جیسا کہ ہم اپنی تفسیر میں واضح کرچکے ہیں، اہل کتاب کے ساتھ رواداری کے اظہار کے لیے نہیں بلکہ ان کے رویہ سے بیزاری کے اظہار کے لیے ہے، اسی طرح مائدہ کی زیر بحث آیت لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنہاجا کا ٹکڑا بھی اہل کتاب کے ساتھ اظہار رواداری کے لیے نہیں بلکہ ان کے روایہ سے اظہار بیزاری اور پیغمبر ﷺ اور مسلمانوں کے لیے تسکین و تسلی اور راہ حق میں سبقت کی دعوت کے لیے ہے۔ اسی طرح سورة حج میں ارشاد ہوا ہے " لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ فَلا يُنَازِعُنَّكَ فِي الأمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ (67) وَإِنْ جَادَلُوكَ فَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ (68) اللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ (69): ہم نے ہر امت کے لیے ایک طریقہ عبادت ٹھہرایا وہ اسی پر چلیں گے تو وہ تم سے جھگڑنے کی کوئی راہ اس معاملے میں نہ پائیں اور تم اپنے رب کی طرف بلاتے رہو اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہہ دو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔ اللہ تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا قیامت کے دن اس چیز میں جس میں تم اختلاف کر رہے ہو " (حج : 47۔ 69) آیت زیر بحث میں " لکل " سے مراد وہی تینوں گروہ مراد ہیں جن کا اوپر ذکر گزرا یعنی یہود و نصاریٰ اور مسلمان۔ فرمایا کہ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ شرعۃ اور منہاج مقرر کیا ہے۔ شرعۃ اور مہاج سے مراد شریعت کا وہ ظاہری ڈھانچہ اور قالب ہے جو دین کے حقائق کو بروئے کار لانے کے لیے ہر مذہب میں اختیار کیا گیا ہے۔ مثلاً عبادتِ الٰہی ایک حقیت ہے جس کو مختلف مذاہب میں نماز، قربانی اور حج کی مختلف شکلوں صورتوں میں ظاہر کیا گیا ہے، بعض حقائق کے لیے قالب خود اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے۔ بعض کے لیے اللہ تعالیٰ کے اذن سے نبی نے مقرر فرمایا ہے۔ غالباً اسی وجہ سے یہاں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ پہلے کے لیے " شرعت " کا لفظ استعمال ہوا ہے، دوسرے کے لیے منہاج کا۔ مختلف امتوں کی شریعت کے اختلاف کی حکمت : جہاں تک دین کے حقائق کا تعلق ہے وہ ہمیشہ سے غیر متغیر ہیں اور غیر متغیر ہی رہیں گے لیکن شریعت کے ظواہر و رسوم ہر امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے الگ الگ مقرر فرمائے تاکہ یہ چیز امتوں کے امتحان کا ذیرہع بنے اور وہ دیکھے کہ کون ظواہر و رسوم کے تعصب میں گرفتار ہو کر حقائق سے منہ موڑ لیتا ہے اور کون حقیقت کا طالب بنتا ہے، اور اس کو ہر اس شکل میں قبول کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے جس میں وہ خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اس کے سامنے آتی ہے۔ سورة بقرہ میں، قبلہ کی بحث میں اس امتحان کا ذکر اس طرح فرمایا ہے " وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ : اور ہم نے اس قبلہ کو، جس پر تم تھے، نہیں جائز رکھا تھا مگر اس لیے کہ ہم چھانٹ کر الگ کردیں ان لوگون کو جو رسول کی پیروی کرتے ہیں ان لوگوں سے جو پیٹھ پیچھے پھرجاتے ہیں، اگرچہ یہ بہت بھاری بات تھی مگر ان لوگوں کے لیے جن کو اللہ نے ہدایت کی توفیق بخشی اور اللہ کا یہ ارادہ نہیں تھا کہ وہ تمہارے ایمان کو برباد کردے، اللہ تو لوگوں پر بڑی رافت و رحمت رکھنے والا ہے " (بقرہ : 143) یہ، حکمت واضح فرمائی گئی ہے ہے اس بات کی کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو اول اول اہل کتاب کے قبلہ پر باقی رکھا، پھر کچھ عرصہ کے بعد اس کو چھوڑ کر بیت اللہ کو قبلہ بنانے کا حکم دیا ؟ ایسا کیوں نہ ہوا کہ پہلے ہی روز سے بیت اللہ ہی کو قبلہ قرار دے دیا جاتا ؟ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اس بات کی مقتضی ہوئی کہ یہ تبدیلی مخلصین و منافقین کے درمیان امتیاز کا ایک ذریعہ بنے۔ اس امتحان کے ذریعہ سے اس نے حق کے طالبوں اور رسول کے مخلص پیرو وں کو ان لوگوں سے الگ کردیا جو محض ظاہردارانہ طور پر رسول کے ساتھ ہوگئے تھے، فی الحقیقت انہوں نے کوئی تبدیلی قبول نہیں کی تھی بلکہ بدستور اپنے پچھلے رسوم وقیود میں گرفتار تھے۔ اسی طرح آیت زیر بحث میں پیغمبر ﷺ کو تسلی دی کہ منافقین اور یہود جو تم سے اور تمہاری لائی ہوئی شریعت سے بدکتے ہیں تو تم ان کی پروا نہ کرو۔ یہ اپنے پچھلے رسوم وقیود میں گرفتار ہیں، ان کا تعصب ان کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان سے آزاد ہو کر اس حق کو شرح صدر کے ساتھ اپنا لیں جو تم نے ان کے سامنے پیش کیا ہے۔ اللہ نے ہر امت کے لیے شرعت اور منہاج الگ الگ بنائے ہیں۔ اگر وہ چاہتا تو سب کو ایک ہی منہاج دیتا لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ منہاج کی اس تبدیلی کو لوگوں کے امتحان کا ذریعہ بنائے اور دیکھے کہ کون حق کا طالب بنتا ہے اور کون صرف لکیر کا فقیر اور رسوم و ظواہر کا غلام بن کے رہ جاتا ہے۔ اللہ عقل، اختیار اور شریعت کی جو نعمت دیتا ہے اس میں وہ لوگوں کا امتحان کرتا رہتا ہے کہ کون ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے، ان کی قدر کر رہا ہے، ان کے معذ اور قشر میں امتیاز رکھتا ہے اور کون بالکل اندھا بہرا بن کر محض رسم کا پجاری بن کر رہ گیا ہے تو تم ان اندھوں بہروں کو ان کے حال پر چھوڑو اور پیغمبر نے تمہارے سامنے حصول قرب الٰہی کا جو میدان کھولا ہے اس میں ایک دوسرے سے گوئے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ یہاں يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ ، والے ٹکڑے کو پھر ذہن میں تازہ کرلیجیے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر منافقین اور ان کے مرشد یہود کفر کی راہ میں مسابقت کر رہے ہیں تو ان کی اس بدبختی پر غم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اہل ایمان، ایمان کے میدان میں بازی جیتنے کی کوشش کریں۔ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا۔۔۔ الایۃ، یعنی اس دنیا میں تو بہرحال آزادی حاصل ہے، کوئی شخص چاہے کفر کی راہ اختیار کرے، چاہے ایمان کی لیکن منزل ہر شخص کی ایک ہی ہے۔ لوٹنا سب کو خدا ہی کی طرف ہے، ایک دن یہ سارا اختلاف اسی کے سامنے پیش ہوگا اور وہ اس اختلاف کا فیصلہ فرمائے گا۔ وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ۔۔۔ الایۃ مجھے بار بار یہ خیال ہوتا ہے کہ اس ٹکڑے کا عطف اوپر فاحکم بینہم بما انزل اللہ ولا تتبع اھواءہم عما جاءک من الحق، والے ٹکڑے پر ہے۔ بیچ میں " لکل جعلنا منکم شرعۃ۔۔ الایۃ والا ٹکڑا بطور ایک جملہ معترضہ کے آگیا ہے۔ جملہ معترضہ کے ختم ہونے کے بعد سلسلہ کی اصل بات کا از سرِ نو حوالہ دے کر مزید تنبیہ فرمائی کہ وَاحْذَرْهُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكَ۔ ہوشیار رہو کہ مبادا وہ تمہیں فتنہ میں ڈال کر خدا کی اتاری ہوئی کسی بات سے ہٹانے میں کامیاب ہوجائیں۔ اس مزید تنبیہ کی ضرورت اس لیے تھی کہ یہ مرحلہ کوئی آسان مرحلہ نہیں تھا۔ مخالف قوتیں آسانی سے پر انداز ہونے والی نہیں تھیں۔ فتنہ کا لفظ خود اشارہ کر رہا ہے کہ وہ پیغمبر اور مسلمانوں کو میثاق الٰہی سے ہٹآنے کے لیے اپنا پورا زور لگا دیں گی۔ اس خطرے سے بچانے کے لیے آگاہ فرما دیا کہ وہ خواہ کتنا ہی زور لگائیں اور کتنا ہی دباؤ ڈالیں تمہیں بہرحال اللہ کی اتاری ہوئی شریعت ہی کی پیروی کرنی ہے، اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات و بدعات کی پیروی نہیں کرنی ہے۔ مخالفین کو تہدید : فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ۔۔ الایۃ، مطلب یہ ہے کہ تم موقفِ حق پر جمے رہو، اگر شریعت الٰہی کو چھوڑ کر یہ شریعت جاہلیت ہی کی پیروی پر اڑے رہے تو سمجھ لو کہ ان کی شامت آئی ہوئی ہے اور وقت آگیا ہے کہ ان کے بعض جرائم کی سزا میں ان پر خدا کا عذاب آدھمکے۔ یہ بات یہاں یاد رکھنے کی ہے کہ قوموں کے اجتماعی جرائم کی سزا اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں دے دیتا ہے، آخرت میں لوگ اپنی انفرادی حیثیتوں میں اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہوں گے۔ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ۔۔ یہ دلیل بیان ہوئی ہے اس بات کی کہ کیوں یہ اس بات کے سزا وار ہیں کہ ان پر اللہ کا عذاب آدھمکے۔ فرمایا کہ اس لیے کہ ان کی اکثریت خدا کی باغی اور نافرمان ہے۔ اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ۔۔۔ الایۃ یعنی خدا کی اتاری ہوئی شریعت کو چھوڑ کر اگر یہ کہیں اور سے فیصلہ چاہتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کی شریعت پر جاہلیت کے قانون کو ترجیح دیتے ہیں اور کسی مدعی شریعت گروہ کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے۔ جو لوگ خدا اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ان کے لیے خدا کے قانون اور خدا کے فیصلے سے بڑھ کر کس کا قانون اور کس فیصلہ ہوسکتا ہے۔ اگر ان کے نزدیک کوئی اور قانون خدا کے قانون سے بڑھ کر ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو خدا اور آخرت کسی چیز پر بھی یقین نہیں ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ حکم الجاہلیۃ کا لفظ ماانزل اللہ کے بالمقابل استعمال ہوا ہے اس وجہ سے ہر وہ قانون جو خدا کے اتارے ہوئے قانون کے خلاف ہے وہ جاہلیت کا قانون ہے، خواہ قرون مظلمہ کی تاریکی میں وجود پذیر ہوا ہو یا بیسویں صدی کی روشنی میں۔ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ۔
Top