Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 90
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِنَّمَا الْخَمْرُ : اس کے سوا نہیں کہ شراب وَالْمَيْسِرُ : اور جوا وَالْاَنْصَابُ : اور بت وَالْاَزْلَامُ : اور پانسے رِجْسٌ : ناپاک مِّنْ : سے عَمَلِ : کام الشَّيْطٰنِ : شیطان فَاجْتَنِبُوْهُ : سو ان سے بچو لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
اے ایمان والاو، شراب، جوا تھان، اور پانسے کے تیر بالکل نجس شیطانی کاموں میں سے ہیں تو ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ
تفسیر آیات 90 تا 91: يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَعَنِ الصَّلٰوةِ ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ۔ ہر نشہ آور چیز خمر ہے خمر اور میسر، پر بقرہ 219 میں اور انصاب و ازلام، پر مائدہ 3 میں بحث گزر چکی ہے۔ شراب اور جوا، جیسا کہ سورة بقرہ کی تفسیر میں ہم بیان کر آئے ہیں، دونوں قوام بیماریاں ہیں۔ کم از کم عرب جاہلیت کی سوسائٹی میں ان کی حیثیت یہی تھی۔ خمر، کے متعلق یہ دعوی بےبیاد ہے کہ اس کا اطلاق صرف انگوری شراب ہی پر ہوتا ہے۔ کلام عرب سے اس کی تائید نہیں ہوتی اور ہو بھی تو شراب کی حرمت کی اصل علت، جیسا کہ نساء کی آیت 43 سے واضح ہے، اس کے اندر نشہ کا پایا جانا ہے۔ اس وجہ سے ہر نشہ آور چیز کا حکم یہی ہوگا، خواہ وہ انگوری ہو یا غیر انگوری۔ اور شریعت کے اس حکیمانہ اصول کے مطابق کہ جس کی مقدار کثیر حرام ہے اس کی مقدار قلیل بھی حرام ہے، اس کی ہر مقدار حرام ہوگی تاکہ فتنہ کا دروازہ کلیۃً بند ہوجائے۔ جوا اور شراب شیطانی ایجادات میں سے ہیں : رجس من عمل الشیطان : رجس اور نجس پر دوسرے مقام میں ہم بحث کرچکے ہیں۔ معناً ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ من عمل الشیطان، یعنی یہ شیطان کی ایجادات اور اس کی کارستانیوں میں سے ہیں اور یہ حربے اس نے اس لیے ایجاد کیے ہیں کہ بنی آدم کو شریعت کی صراط مستقیم سے بہکانے کا جو عہد اس نے کر رکھا ہے اس کو پورا کرسکے۔ ان کے اندر اگر کوئی پہلو نفع کا نظر آتا ہے تو یہ محض ایک نظر فریب ملمع ہے۔ ان کا ضرر ان کے نفع کے مقابل میں، جیسا کہ بقرہ کی تفسیر میں واضح ہوچکا ہے، اتنا زیادہ ہے کہ اس کے سامنے اس حقیر نفع کی کوئی قیمت نہیں۔ جوئے اور شراب کے اثرات معاشرے پر : اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاۗءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ، فی الخمر وا لمیسر میں " فی " اشتغال و انہماک کے مضمون پر دلیل ہے۔ یعنی شیطان نے یہ فتنے اس لیے ایجاد کیے ہیں کہ تمہیں ان میں لگا کر تمہارے درمیان برابر دشمنی اور انتقام کی آگ بھڑکاتا رہے، چناچہ یہ حقیقت ہے کہ جس معاشرے میں یہ وبا پھیل جائے اس میں یا تو عفت، عزت، ناموس اور وفا و حیا کا احساس مٹ جائے گا، جیسا کہ مغرب زدہ سوسائٹی میں آج مشاہدہ ہورہا ہے اور یہ بجائے خود ایک عظیم حادثہ ہے اور اگر ان کی کوئی رمق باقی رہے گی تو ناگزیر ہے کہ آئے دن ان کی بدولت تلواریں کھنچی رہیں۔ عرب، عفت و عصمت، خودداری اور غیرت کے معاملے میں بڑے حساس تھے اور یہ ان کی بہت بڑی خوبی تھی لیکن ساتھی ہی شراب اور جوئے کے بھی رسیا تھے اس وجہ سے جام و سنداں کی یہ بازی ان کے لیے بڑی مہنگی پڑ رہی تھی۔ جہاں کسی نے شراب کی بدمستی میں کسی کے عزت و ناموس پر حملہ کیا، کسی کی تحقیر کی، کسی کو چھیڑا یا جوئے میں کوئی چنید کی (اور یہ چیزیں جوئے اور شراب کے لوازم میں سے ہیں) وہیں فریقین تلواریں سونت لیتے اور افراد کی یہ لڑائی چشم زدن میں قوموں اور قبیلوں کی جنگ بن جاتی اور انتقام در انتقام کا ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتا کہ صرف مہینے اور سال نہیں بلکہ پوری صدی گزار کر بھی یہ آگ ٹھنڈی نہ پڑتی۔ چناچہ عرب کی تاریخ میں ایسی جنگیں موجود ہیں جن کی آگ جوئے یا شراب خانہ خراب ہی نے بھڑکائی اور پوری ایک صدی تک وہ اگ نہ بجھی۔ بہرحال یہ چیز یا تو دیوث بناتی ہے یا خانہ خراب اور ان دونوں میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جس کو کوئی سلیم الفطرت معاشرہ گوارا کرسکے۔ خدا سے غفلت زندگی کے حقائق سے غفلت ہے : وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ و عن الصلوۃ، ذکر اللہ کے بعد صلوۃ کا ذکر عام کے بعد خاص کا ذکر ہے جس سے ان دونوں کا ربط واضح ہوتا ہے۔ اسلام نے زندگی کی تمام رفعت و عظمت ذکر الٰہی کے ساتھ وابستہ کی ہے۔ جو شخص خدا سے غافل ہوا وہ خود اپنی قدروقیمت سے بالکل بیخبر ہوجاتا ہے۔ نسوا اللہ فانساہم انفسہم، میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ کی یاد کا خاصہ یہ ہے کہ وہ انسان کو زندگی کی اصل حقیقتوں سے کبھی بےپروا نہیں ہونے دیتی جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کبھی راہ سے بےراہ نہیں ہوتا۔ اگر کبھی کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو خدا کی یاد اس کو سنبھال لیتی ہے۔ برعکس اس کے شراب کا اصل اثر جو انسان پر پڑتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ اس کو زندگی کی اصل حقیقتوں سے ہٹا کر ایک خیالی دنیا میں لے جا کر پھینک دیتی ہے اور اس خیالی دنیا کا وہ ایسا دیوانہ ہوجاتا ہے کہ پھر جس طرح سگ گزیدہ پانی سے ڈرتا ہے اسی طرح وہ زندگی کی اصل حقیقت سے ڈرنے لگتا ہے۔ کبھی اس سے رودر رو ہونے کی جرات نہیں کرتا اور اسی حال میں ایک دن اس کی زندگی کا قصہ تمام ہوجاتا ہے۔ اب ذرا اس انسان کی بدبختی پر غور کیجیے جو زندگی بھر خواب دیکھتا رہا اور کبھی اس کو جاگنے اور زندگی کے انجام پر غور کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ عربی میں استفہام کے مختلف مفہوم : فھل انتم منتہون، استفہام عربی زبان میں جیسا کہ استاذ امام ؒ نے اپنی کتاب اسالیب القرآن میں وضاحت فرمائی ہے، تاکید، اقرار، تنبیہ، انکار، زجر، امر اور تحقیر کے مفہوم کے لیے آتا ہے۔ یہاں موقع دلیل ہے کہ یہ امر کے مفہوم میں ہے، جس طرح سورة ہود آیت 14 میں فھل انتم مسلمون (تو کیا اب تم مسلمان بنتے ہو) ہے۔ اس اسلوب میں امر کے ساتھ زجر، موعظت، تاکید و تنبیہ اور اتمام حجت کا مضمون بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ یہاں غور کیجیے تو اسلوب کلام اس حقیقت کو ظاہر کر رہا ہے کہ شراب اور جوئے کے مفاسد کی تفصیل اتنے مختلف مواقع پر اور اتنے مختلف پہلوؤں سے تمہارے سامنے آچکی ہے کہ اب اس معاملے میں کسی کے لیے بھی کسی اشتباہ کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے تو بتاؤ اب بھی اس سے باز آتے ہو یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ امر کے سادہ اسلوب میں یہ سارا مضمون نہیں سما سکتا تھا۔
Top