Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 12
یَسْئَلُوْنَ اَیَّانَ یَوْمُ الدِّیْنِؕ
يَسْئَلُوْنَ : وہ پوچھتے ہیں اَيَّانَ : کب يَوْمُ الدِّيْنِ : جزا وسزا کا دن
پوچھتے ہیں جزا و سزا کا دن کب آئے گا !
یسئلون ایان یوم الدین 12 منکرین جزا کا معارضہ یعنی وہ جزا و سزا سے آگاہ کرنے والوں کا منہ بند کرنے کے لئے یہ سوال کرتے ہیں کہ جس یوم الجزاء سے ڈرا رہے ہو کہاں ہے ؟ اس کا ظہور کب ہوگا ! اس سوال کے اندر انکار، استہزاء اور جلد بازی تینوں ہی باتیں موجود ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر فی الواقع اس طرح کا کوئی دن آنے والا ہے تو وہ آتا کیوں نہیں ! اس کے ڈرائونے سنتے سنتے تو ہمارے کان پک گئے لیکن اس کو نہ آنا تا نہ آیا۔ یہ محض ایک ہوا ہے جس سے تم ہمیں مرعوب کرنا چاہتے ہو۔ اگر اس کی کوئی حقیقت ہے تو اس کو لائو۔ اس کو دیکھے بغیر ہم تمہاری ان خیالی باتوں سے مرعوب ہونے والے نہیں ہیں ! یہ سوال نقل کرنے سے قرآن کا مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ اس قماش کے لوگ حقائق سے گریز اختیار کرنے کے لئے اسی طرح کے بہانوں کی آڑ میں چھپتے ہیں حالانکہ انہیں اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ اگر یوم الجزاء کا آنا آفاق وانفس کے دلائل سے ثابت ہے اور اس کا ظہور اس کائنات کے خالق کی صفات کا لازمی تقاضا ہے تو اس دلیل سے اس کو نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ اس سے ڈرانے والے اس کو دکھا نہیں سکتے یا اس کا وقت نہیں بتا سکتے۔ اس قسم کا معارضہ ایک حقیقت کو طن وتخمین سے جھٹلانے کے ہم معنی ہے اس وجہ سے قرآن نے ان لوگوں کے لئے خرصون کا لفظ اسعتمال فرمایا۔
Top