Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 45
فَمَا اسْتَطَاعُوْا مِنْ قِیَامٍ وَّ مَا كَانُوْا مُنْتَصِرِیْنَۙ
فَمَا اسْتَطَاعُوْا : تو نہ ان کو استطاعت تھی مِنْ قِيَامٍ : کھڑے ہونے کی وَّمَا كَانُوْا : اور نہ تھے وہ مُنْتَصِرِيْنَ : بدلہ لینے والے
پھر نہ وہاٹھ ہی سکے اور نہ اپنا بچائو ہی کرسکے۔
فما استطا عوامن قیام وماکانوامنتصرین (45) یعنی جب انہوں نے کڑک سنی تو ان پر دہشت اور کپکپی طاری ہوگئی۔ وہ کھڑے نہ رہ سکے بلکہ زمین پر گر پڑے۔ سورة اعراف میں ان کا حال یوں بیان ہوا ہے : فاخذتھم الرجفۃ فاصبعوا فی دارھم جثمین (الاعراف : 91) (پس ان کو کپکی نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے رہ گئے)۔ وما کانو متنصرین، انتصار، کے معنی مدافعت کرنے کے ہیں۔ یعنی وہ اللہ کے عذاب سے اپنی مدافعت کرنے والے نہ بن سکے۔ اس معنی میں یہ لفظ معروف ہے۔ امرء القیس کا شعر ہے۔ فانشب اظفارہ فی النساء فقلت ھسلت الاتنتصر (کتے نے اس نیل گائو کی ران میں اپنے پنجے گاڑدیئے۔ تب میں نے اس سے کہا، کم بخت، اب تو اپنا بچائو کر۔) یہاں تھوڑی دیر توقف کرکے عاد اور ثمود کے عذاب کی نوعیت بھی اچھی طرح سمجھ لیجئے تاکہ ابتدائے سورة کی قسموں کے ساتھ ان سرگزشتوں کا تعلق بھی اچھی طرح واضح ہوجائے۔ استاذ امام فراہی ؒ نے تفسیر سورة ذاریات میں ان کے عذاب کی یہ شکل بیان فرمائی ہے۔ عاد اور ثمود کے عذاب کی نوعیت ”قرآن مجید میں قوم عاد کی ہلاکت کی جو تفصیل بیان ہوئی ہے اس پر جو شخص بھی غور کرے گا اس سے یہ حقیقت مخفی نہیں رہے گی کہ جس تند ہوا سے وہ ہلاک کئے گئے اس کے ساتھ سرما کے وہ بادل بھی تھے جو ہمیشہ رعدو برق کے ساتھ نمودار ہوا کرتے ہیں۔ قرآن میں جہاں ان کی تباہی کا ذکر ہوا ہے، ہوا کے ساتھ پانی سے خالی بادلوں اور صاعقہ کا بھی ذکر ہوا ہے۔ سورة احقاف میں ہے۔ (الاحقاف : 24۔ 25) جب انہوں نے عذاب کو ابر کی صورت میں اپنی وادیوں کی طرف بڑھتے دیکھا، بولے یہ تو بادل ہے جو ہمیں سیراب کرنے والا ہے۔ بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کے لئے تم جلدی مچائے ہوئے تھے۔ یعنی بادتند جس کے اندر ایک دردناک عذاب ہے اکھاڑپھینکے گی ہر چیز اپنے رب کے حکم سے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام خصوصیات موسم سرما کی ہوا اور اس کے بادلوں کی ہیں۔ اس زمانے میں باد شمال صرصر کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ خشکی اور قحط کی ایک عام نحوست اور تباہی ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ سورة قمر میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے : انا ارسلنا علیھم ریحاً صرصرافی ایام فی یوم نحس مستمیر (19) (اور ہم نے ان پر باد صرصرچلادی قائم رہنے والی نحوست کے زمانہ میں۔) اسی طرح حم السجدۃ میں ہے : فارسلنا علیھم ریحاً صرصرانی ایام نحسات (16) (پس ہم نے ان پر باد صرصر چلادی نحوست کے زمانے میں“) اس کے بعد مولانا ؒ نے اپنے دعوے کی تائید میں بعض شعرائے جاہلیت کے حوالے پیش کئے ہیں پھر آگے فرماتے ہیں۔ ’۔ سرما کی یہ تند ہوائیں جب چلتی ہیں تو دھاریوں والے سرخ بادلوں کے ٹکڑے، اولے اور عدوبرق کی آفتیں اپنے ساتھ لاتی ہیں۔ کلام عرب میں اس کی تمام تفصیلات ملتی ہیں…“ ”حم السجدۃ میں قوم عاد کے عذاب کے ذیل میں صاعقہ یعنی کڑک اور چمک کی بھی تصریح ہے : فان اعرضوافقل انذرتکم صعقۃ مثل صعقۃ عادوثمود (14) (اگر وہ اعراض کریں تو ان کو باخبر کردو کہ میں تم کو اس طرح کی کڑک کے عذاب سے ڈراتا ہوں، جیسا عاد اور ثمود پر نازل ہوا)“ ”اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ ان کے اوپر اللہ تعالیٰ نے بادلوں، تند ہوا اور ہولناک کڑک کا عذاب نازل فرمایا لیکن اصل تباہی ہوا کے تصرفات سے واقع ہوئی اس وجہ سے اگر اثر سے اثر پر استدلال کا طریقہ اختیار کیا جائے تو یہ بات بھی نکلتی ہے کہ ثمود پر اللہ تعالیٰ نے دھاریوں والے بادل بھیجے جن کے اندر ہولناک کڑک اور بہرا کردینے والی چیخ بھی تھی جس طرح قوم عاد پر ہوا کے ساتھ رعد وبرق والے بادل بھیجے۔ چونکہ ثمود کی تباہی صاعقہ ہی کے ذریعے سے واقع ہوئی … اس وجہ سے صرف اسی کا ذکر کیا، بادلوں کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن التزامی طور پر ثبوت ان کا بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح عاد کے ذکر میں ہوا کا ذکر بار بار کیا ہے لیکن بادلوں کا ذکر صرف ایک ہی جگہ کیا ہے“۔
Top