Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 5
اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌۙ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں تُوْعَدُوْنَ : تمہیں وعدہ دیاجاتا ہے لَصَادِقٌ : البتہ سچ ہے
کہ جس عذاب کی تم کو وعید سنائی جا رہی ہے وہ سچ ہے
انما توعدون لصادق، وان الدین لواقع (6-5) قسم کا مقسم علیہ یہ اوپر کی قسم کا مقسم علیہ ہے۔ یعنی ہوائوں کے یہ عجائب تصرفات، جن کا تم برابر مشاہدہ کرتے رہتے ہو، اس بات پر شاہد ہیں کہ جس چیز کی تم کو وعید سنائی جا رہی ہے وہ بالکل سچ ہے اور جزاء و سزا لازماً واقع ہو کے رہے گی۔ توعدون، کا مفہوم انما تعدون استاذ امام فراہی کے نزیک توعدون، وعد سے ہے جس کے تحت وہ تمام چیزیں داخل ہیں جن کا نبیوں کی زبنی وعدہ کیا گیا ہے، یعنی حشر نشر، جزا سزا اور رحمت و نقمت وغیرہ وہ ان الدین لواقع کو اسی پر عطف خاص علی العام کی حیثیت دیتے ہیں۔ لیکن میرا رجحان اس طرف ہے کہ توعدون وعید سے ہے اور یہاں اس سے مراد وہ عذاب ہے جو رسول کی تکذیب کی صورت میں لازماً اس کے مکذبین پر نازل ہوتا ہے۔ گویا ہوائوں کے عجائب تصرفات کی قسم یہاں میرے نزدیک دو چیزوں پر کھائی گی ہے۔ ایک اس بات پر کہ قریش کو جس عذاب کی بصورت تکذیب دھمکی دی جا رہی ہے اور جس کو وہ محض ایک دھونس گمان کر رہے ہیں وہ دھونس نہیں ہے بلکہ بالکل سچی دھمکی ہے اور اس طرح وہ جزا و سزا بھی ایک امر شدنی ہے جس کو بہت بعید از امکان سمجھ رہے ہیں۔ میرے اس رجحان کے حق میں کئی باتیں جاتی ہیں، لیکن ان کی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف تین باتوں کی طرف اشارہ کافی ہے۔ ایک یہ کہ اس طرح مقسم علیہ کے دونوں اجزاء کا محل بالکل بےتکلف الگ الگ معین ہوجاتا ہے۔ دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے اپنی اپنی قوموں کو دو عذابوں سے ڈرایا۔ ایک اس عذاب سے جو اس دنیا میں ان پر نازل ہوا اگر وہ اپنی تکذیب پر اڑی رہ گئیں، دوسرے اس عذاب سے جس سے لازماً ان کو آخرت میں سابقہ پیش ائٓے گا اگر ان کا خاتمہ کفر ہی پر ہوا۔ ان دونوں عذابوں کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے اور ہم اس کی وضاحت کرتے آ رہے ہیں۔ یہ حقیقت مقتضی ہے کہ یہاں ان دونوں عذابوں کا ذکر ہو جب کہ قسم ان دونوں پر شاہد ہے۔ اس کی وضاحت آگے آئے گی۔ تیسری یہ کہ آگے رسولوں کی تکذیب کرنے والی بعض قوموں کا حوالہ قرآن نے اسی وعید کی تصدیق کے طور پر دیا ہے۔ وہاں آپ دیکھیں گے کہ ان کی تباہی میں ہوائوں کے تصرفات کو قرآن نے خاص طور پر نمایاں فرمایا ہے۔ زبان کا ایک نکتہ یہاں یہ نکتہ بھی محلوظ رہے کہ عذاب دنیا کی وعید کا ذکر تو فعل سے کیا ہے اور آخرت کی جز اور سزا کا ذکر اسم دنی سے کیا ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ اس دنیا میں قوموں پر جو عذاب آتا ہے وہ ایک امر حارث اور مشروط بشرائط و حالات ہوتا ہے۔ لیکن جزاء و سزا کا قانون اس دنیا کی خلقت کی غایت اور اس کا الزمی نتیجہ ہے اس وجہ سے پہلے کو فعل سے تعبیر فرمایا اور دوسرے کو اسم سے
Top