بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - At-Tur : 1
وَ الطُّوْرِۙ
وَالطُّوْرِ : قسم ہے طور کی
شاہد ہے طور
1۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت والطور (1) ”و“ یہاں قسم کے لیے ہے اور یہ وضاحت اس کے محل میں تفصیل سے ہوچکی ہے۔ ا ؎ کہ قرآن میں جو قسمیں کھائی گئی ہیں بیشتر اس دعوے کی شہادت کے لیے کھائی گئی ہیں جو اس قسم کے بعد بطور مقسم علیہ مذکور ہوا ہے۔ یہاں مقسم علیہ، جیسا کہ ہم نے تمہید میں اشارہ کیا۔ (ان عذاب ربک لواقع) (بیشک تیرے رب کا عذاب واقع ہو کے رہے گا) اس وجہ سے طور کی قسم لازماً اس دعوے پر شہادت کے لیے کھائی گئی ہے، چناچہ قسم کے اسی مفہوم کو پیش نظر رکھ کر ہم نے اس کا ترجمہ ”شاہدے طور“ کیا ہے اور یہ ترجمہ ہمارے نزدیک زیادہ معنی خیز ہے۔ طور سے مراد ہی جبل طور ہے جس کا ذکر مختلف پہلوئوں سے قرآن مجید میں بار بار ہوا ہے۔ اسی طور کی ایک مقدس وادی طویٰ ، میں حضرت موسیٰ ؑ کو مدین سے واپس ہوتے ہوئے، پہلی بار خدا کی تجلی کا مشاہدہ ہوا۔ یہیں وہ شرف رسالت سے مشرف ہوئے اور حکم ہوا کہ وہ فرعون اور اس کی قوم کے پاس متدربن کر جائیں اور اس کو آگاہ کردیں کہ اگر وہ اپنی سر کشی سے باز نہ آیا تو اپنی قوم سمیت اللہ کے عذاب کی زد میں آجائے گا۔ پھر فرعون کی ہلاکت کے بعد اسی طور پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو تورات دینے کے لیے بلایا۔ حضرت موسیٰ ؑ کی غیبت کے دوران میں جب بنی اسرائیل گو سالہ پرستی کے فتنہ میں مبتلا ہوئے تو اسی طور کے دامن میں اپنی قوم کے سرداروں کو لے کر حضرت موسیٰ ؑ اجتماعی توبہ کے لیے حاضر ہوئے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سارے طور کو ہلا دیا اور بنی اسرائیل کو متنبہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب تورات دے کر تم سے جو عہد لے رہا ہے، اگر اس عہد پر تم استوار نہ رہے تو یاد رکھو کہ اس کی قدرت یہ بھی ہے کہ اسی پہاڑ سے تمہیں کچل کے رکھ دے گا۔ اپنی ان گوناگوں خصوصیات کے سبب سے جبل طور اس دعوے کی صداقت و شہادت کا ایک عظیم تاریخی نشان ہے جو اس قسم کے بعد مذکورہوا ہے، چناچہ اسی خصوص کی بناء پر اس کی قسم سورة تین میں بھی کھائی گئی ہے اور وہاں بھی، جیسا کہ سورة تین کی تفسیر میں انشاء اللہ ہم واضح کردیں گے۔ 7 اسی جزاء و سزا ہی کے پہلو سے اس کی قسم کھائی گئی ہے۔ (ایک غلط فہمی)۔ بعض لوگوں نے لفظ طور کو یہاں عام پہاڑ کے معنی میں لیا ہے، لیکن یہ قول مختلف وجوہ سے کمزور ہے۔ اول تو قرآن کی تاویل معروف معنی کے لحاظ سے کرنی چاہئے۔ لفظ طور عبرانی یا سریانی میں پہاڑ کے معنی میں ممکن ہے آتا ہو لیکن عربی میں یہ اس معنی میں معروف نہیں۔ قرآن میں یہ لفظ بار بار آیا ہے اور ہر جگہ علم ہی کی حیثیت سے آیا ہے۔ دوسرے یہ کہ پہاڑ کے معنی لینے کی صورت میں مقسم علیہ کے ساتھ اس کی مطابقت باقی نہیں رہتی ورآنما لی کہ یہ چیز ضروری ہے ورنہ قسم بےمحل ہوجائے گی۔
Top