Tadabbur-e-Quran - At-Tur : 18
فٰكِهِیْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ١ۚ وَ وَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ
فٰكِهِيْنَ : خوش ہوں گے بِمَآ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ ۚ : بوجہ اس کے جو دے گا ان کو ان کا رب وَوَقٰىهُمْ : اور بچا لے گا ان کو رَبُّهُمْ : ان کا رب عَذَابَ الْجَحِيْمِ : جہنم کے عذاب میں
وہ محفوظ ہو رہے ہوں گے۔ ان نعمتوں سے جوان کے رب نے ان کو دے رکھی ہوں گی اور اس بات سے کہ ان کے رب نے ان کو دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھا۔
۔۔۔۔۔۔ (18) یہ ان باغوں اور نعمتوں سے ان کو بہرہ مند اور محظوظ ہونے کی تفصیل آرہی ہے۔ فرمایا کہ ان کے رب نے ان کو جو کچھ بخش رکھا ہوگا اس سے وہ پوری آزادی کے ساتھ محظوظ ہو رہے ہوں گے (بما اتھم ربھم) میں جو ابہام ہے وہ تفخیم شان پر دلیل ہے کہ آج کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کہ ان کا رب ان کو کیا کچھ بخش دے گا۔ ان کی حقیقت اس دن کھلے گی جس دن یہ عطا ہوں گی اور انہیں پر کھلیں گی جن کو عطا ہوں گی۔ (ووقھم ربھم عذاب الجحیم) کا عطف میرے نزدیک میرے نزدیک (بما اتھم ربھم) پر ہے۔ یعنی وہ اپنے رب کی بخشی ہوئی بےپایاں نعمتوں سے محظوظ اور خاص طور پر اس کے اس فضل پر خوش ہو رہے ہوں گے کہ اس نے ان کو اپنی توفیق بخشی سے دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھا (لفظ فکھین) میں مسرت و ممنونیت کا مضمون خود مضمر ہے اس وجہ سے اس مفہوم کے لیے کوئی الگ لفظ لانے کی ضرورت نہیں ہوئی۔ اس سے یہ بات نکلی کہ جس دوزخ کو اس کے مذبین آج اپنے مذاق کا موضع بنائے ہوئے ہیں اہل جنت قیامت کے دن اس سے نجات پانے کو اپنے رب کا سب سے بڑا فضل و احسان سمجھیں گے اور اس پر ان کارواں رواں شکر گزار ہو رہا ہوگا۔ یہ مضمون آگے اسی سورة میں یوں آیا ہے (قالو انا کنا قبل فی اھلنا مشفقین۔ فمن اللہ علینا ورتنا عذاب السموم (26۔ 27) (وہ کہیں گے ہم پہلے اپنے اہل و عیال میں بڑے چوکنے رہے ہیں تو اللہ نے ہم پر احسان فرمایا اور ہم کو عذاب سموم سے محفوظ رکھا۔
Top