Tadabbur-e-Quran - An-Najm : 13
وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ
وَلَقَدْ رَاٰهُ : اور البتہ تحقیق اس نے دیکھا اس کو نَزْلَةً : اترنا اُخْرٰى : ایک مرتبہ پھر
اور اس نے ایک بار اور بھی اس کو اترتے دیکھا
(ولقد راہ نزلۃ اخری عند سدرۃ المنتھی عندھا حبۃ الماوی (13، 15) (دوسرا مشاہدہ) یعنی یہ بات نہیں ہے کہ پیغمبر ﷺ کو یہ مشاہدہ صرف ایک ہی بار ہوا ہو اس وجہ سے اس کو کوئی داہمہ یا مغالطہ قرار دیا جاسکے بلکہ اسی طرح انہوں نے دوبارہ بھی جبریل ؑ کو سدرۃ المنتی کے پاس دیکھا جس کے پاس ہی جنت الماویٰ بھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنا جو مشاہدہ تمہارے سامنے وہ بیان کر رہے ہیں وہ مذاق اڑانے کی چیز نہیں بلکہ سنجیدگی سے غور کرنے کی چیز ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں صرف دو ابتدائی مشاہدوں کا حوالہ ان لوگوں کے جواب میں دیا گیا ہے جنہوں نے شروع شروع میں آپ کے ان مشاہدات کا مذاق اڑانے کی کوشش کی، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ نے حضرت جبریل ؑ کو دو ہی بار دیکھا۔ ان دو ابتدائی مشاہدات کے بعد حضرت جبریل ؑ کا ظہور مختلف شکلوں اور مختلف اوقات میں تواتر کے ساتھ ہونے لگا، یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کے لیے حضرت جبریل ؑ کی آمد سے زیادہ نہ کسی کی آمد معلوم و معروف تھی نہ محبوب و مطلوب۔ (سدرۃ المنتھی) سدرۃ المنتھی وہ مقام ہے جہاں اس عالم نا سوت کی سرحدیں ختم ہوتی ہیں۔ سدرۃ بیری کے درخت کو کہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے یہ بیری کا درخت عالم نا سوت اور عالم لاہوت کے درمیان ایک حد فاضل ہے۔ ہمارے لیے یہ سارہ عام نادیدہ ہے، نہ ہم عام نا سوت اور عالم لاہوت کے حدود کو جانتے اور نہ ان دونوں کے درمیان کے اس نشان فاصل کی حقیقت سے واقف ہیں جس کو یہاں سدرۃ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ یہ چیزیں متشابہات میں داخل ہیں اس درجہ سے، قرآن کی ہدایت کے مطابق، ان پر ایمان لانا چاہیے، ان کی حقیقت کے در پے ہونا جائز نہیں ہے، ان کی حقیقت صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ جن کا علم راسخ ہوتا ہے ان کے علم میں ان چیزوں سے اضافہ ہوتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو ان کی حقیقت جاننے کے درپے ہوتے ہیں وہ ٹھوکر کھاتے اور گمراہی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ (عندھا جنۃ الماوی، یہ سدرۃ المنتھی کے مقام کی نشان دہی فرما دی کہ اس کے پاس جنۃ الماوی بھی ہے۔ جنۃ الماوی پر سورة سجدہ کی آیت 19 کے تحت بحث گزر چکی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سدرۃ المنتھی عالم نا سوت کی آخری حد پر ہے۔ اسی طرح جنۃ الماوی عالم لاہوت کے لفظ آغاز پر ہے۔ اس نشان دہی سے یہ بات واضح ہوئی کہ آنحضرت ﷺ کو حضرت جبریل ؑ کا دوباہ مشاہدہ دونوں عالموں کے نقطہ اتصال پر ہوا۔
Top