Tadabbur-e-Quran - An-Najm : 2
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ
مَا ضَلَّ : نہیں بھٹکا صَاحِبُكُمْ : ساتھی تمہارا وَمَا غَوٰى : اور نہ وہ بہکا
کہ تمہارا ساتھی نہ بھٹکا ہے اور نہ گمراہ ہوا ہے
(ما ضل صا حبکم وما غوی وما ینطق عن الھدی ان ھو الا وحی یوحی) (2، 4)۔ (آنحضرت ﷺ پر کتاب کے الزام کی تردید)۔ یہ پوری مقسم علیہ کی حیثیت رکھتی ہے ستاروں کے غروب یا سقوط کی قسم کھا کر قریش کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمہارے ساتھی (پیغمبر ﷺ نہ تو بھٹکے ہیں نہ گمراہ ہوئے ہیں۔ جو کلام وہ تمہیں سنا رہے ہیں اپنے جی سے گھڑ کے نہیں سنا رہے ہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر وحی کیا جاتا ہے کہ وہ اس کو تمہیں سنائیں تاکہ تم ہدایت حاصل کرو۔ موقع کلام دلیل ہے کہ قریش آنحضرت ﷺ پر کہانت کا جو الزام لگاتے تھے یہ اس کی تردید ہے۔ قریش کے لیڈروں کو جب آپ قرآن سناتے اور وحی اور اس کے لانے والے فرشتہ سے متعلق اپنے تجربات و مشاہدات بیان فرماتے تو وہ اپنے عوام کو یہ باور کراتے کہ یہ بھی ہمارے کاہنوں اور منجموں کے قسم کے ایک کاہن و منجمی ہیں۔ جس طرح ستاروں کے قرآن، نکھتروں کے مشاہدات اور جنات کے القاء کی مدد سے وہ مسجع و مقفی کلام پیش کرتے اور غیب کی باتیں بتاتے ہیں اسی طرح یہ بھی مسجع کلام سناتے اور مستقبل کی باتیں جاننے کے مدعی ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ کہ ان کے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی فرشتہ وحی لے کر آتا ہے محض دھونس ہے۔ جس طرح ہمارے کاہنوں پر جناب القاء کرتے ہیں اسی طرح کوئی جن ان پر بھی القاء کرتا ہے جس کو یہ فرشتہ سمجھتے ہیں۔ قریش کے اس الزام کی تردید قرآن میں جگہ جگہ ہوئی ہے۔ خاص طور پر سورة شعراء کے آخر میں اس کے بعض نہایت اہم پہلو زیر بحث آئے ہیں۔ یہاں اسی الزام کی تردید ایک مختلف نہج سے کی جا رہی ہے جس کا آغاز ستاروں کے غروب اور سقوط کی قسم سے ہوا ہے۔ (ستاروں کے غروب اور سقوط کی شہادت) ستاروں کے غروب یا ان کے سقوط سے قرآن نے دو پہلوئوں سے عربوں کے اس تصور پر ضرب لگائی ہے جو وہ کاہنوں اور منجموں سے متعلق رکھتے تھے۔ ایک تو اس پہلو سے کہ یہ سورج اور چاند اور یہ تمام نجوم و کواکب نہ خود اپنے اختیار سے کوئی تصرف کرتے ہیں نہ بذات خود موثر یا نافع و ضار ہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں مسخر اور اسی کے حکم کے تابع ہیں۔ ان کا پوری پابندی کے ساتھ ایک مقررہ نظام الاوقات کے مطابق، طلوع و غروب خود اس بات کی شہادت ہے کہ یہ بذات خود کسی اقتدار و اختیار کے مالک نہیں ہیں اس وجہ سے نہ تو عبادت کے حق دار ہیں نہ اس بات کے کہ ان کو وحی والہام کا مصدر سمجھ کر ان سے رجوع کیا جائے یا ان کو آفات کا منبع خیال کر کے ان کی دیائی دی جائی یا ان کو خیر و برکت کا مرکز بان کر ان سے دعا والتجاء کی جائے ! بلکہ یہ خود اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے اور اپنے عمل سے اللہ کے بندوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی انہی کی طرح اللہ ہی کی بندگی اور اسی کو سجدہ کریں۔ یہ مضمون قرآن میں یوں تو گوناگوں شکلوں میں بیان ہوا ہے لیکن خاص طور پر حضرت ابراہیم ؑ کی وہ حجت جو انہوں نے اپنی قوم پر تمام کی اس بات میں حرف آخر ہے۔ یہ امر یہاں پیش نظر رہے کہ کہانت کی گرم بازاری جس طرح جنات و شیاطین کے تعلق سے تھی اسی طرح ستاروں کی گردش اور اس کے اثرات سے بھی اس کا نہایت گہرا ربط تھا۔ قرآن نے یہاں (والنجم اذا ھوی) کہہ کر اسکے اسی پہلو پر ضرب لگائی ہے کہ ستارے تو خوداپنے عمل سے شہادت دیتے ہیں کہ وہ خالق کائنات کے حکم کے تابع ہیں۔ اسی کے حکم سے وہ طلوع ہوتے اور اسی کے حکم سے ڈوبتے ہیں، تو احمق ہیں وہ لوگ جو ان سے الہام حاصل کرنے یا لوگوں کی تقدیر معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان سے بھی زیادہ احمق ہیں وہ جو اللہ کے رسول کو نجومی یا کاہن بتاتے ہیں درآنحالیکہ ان کی ساری تعلیم ان خرافات پر ایک ضرب کاری ہے۔ دوسرے اس پہلو سے کہ کاہنوں کا یہ دعویٰ جھوٹ ہے کہ ان کا ربط ایسے جنوں سے ہے جو آسمان کی خبریں معلوم کر کے ان کو بتاتے ہیں۔ غیب تک کسی کی بھی رسائی نہیں ہے، جو جنات و شیاطین غیب کی خبریں معلوم کرنے کے لیے آسمانوں میں گھات میں بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو کھد یڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ ان پر شہاب ثاقب کی مار پڑتی ہے۔ سورة صفت میں اس کا ذکر یوں آیا ہے۔ (الا من خطف الخطفۃ فاتبعہ شھاب ثاقب) (الصفت 10) (مگر جو کوئی کچھ اچک لینے کی کوشش کرے تو اس کا تعاقب کرتا ہے ایک شہاب ثاقب)۔ اللہ تعالیٰ کے اس انتظام کا اعتراف خود جنات نے ان الفاظ میں کیا ہے۔ (وانا کنا نقعد منھا مقاعد للسمع فمن یستمع الان بجدلہ شھابا رصدا) (الجن : 9) (اور یہ کہ ہم آسمان کے ٹھکانوں میں غیب کی باتیں سننے کے لیے بیٹھا کرتے تھے لیکن اب جو سننے کی کوشش کرے گا تو وہ اپنے لیے ایک شہاب کو گھات میں پائے گا۔) انہی ٹوٹنے والے ستاروں یا آسمانی راکٹوں کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے سورة ٔ واقعہ (75، 78۔۔۔۔ سورة حاقہ 38، 43) اور سورة تکریرا 15، 25 میں قرآن کریم کو شیطانی چھوت سے بالکل پاک اور بالا تر قرار دیا ہے اور یہ واضح فرمایا ہے کہ قرآن کی حریم قدس تک کسی جن و شیطان کو رسائی نہیں ہے، اگر کوئی وہاں پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر شہاب ثاقب کی مار پڑتی ہے۔ شیاطین نہ اس لوح محفوظ تک پہنچ سکتے ہیں جس میں قرآن محفوظ ہے۔ نہ اس جلیل القدر فرشتہ کو متاثر کرسکتے جو اس کو لے کر اترتا ہے اور نہ اس رسول ہی کو گمراہ کرسکتے جس پر یہ نازل ہوتا ہے۔ شیاطین ان کا ہنوں پر اترتے ہیں جو بالکل جھوٹے اور نابکار ہوتے ہیں اور محض لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے بھگل بناتے اور غیب دانی کے دعوے کرتے ہیں۔ (بعض الفاظ کی وضاحت)۔۔۔۔۔ قسم اور مقسم کا تعلق سمجھ لینے کے بعد ان آیتوں کے الفاظ اور ان کے مفہوم کو بھی اچھی طرح سمجھ لیجئے تاکہ بات پوری طرح ذہن نشین ہوجائے۔ (ما ضل صا جیکم و ما غوی ضد) تمام طور پر انسان کی اس گمراہی کے لیے آتا ہے جس کا تعلق بھول چوک یا فکر و اجتہاد کی غلطی سے ہو اور غوی کا تعلق اس گمراہی سے ہوتا ہے جس میں نفس کی اکساہٹ اور آدمی کے قصد و تعمد کو بھی دخل ہو۔ لفظ صاحب یہاں نبی ﷺ کے لیے استعمال ہوا ہے اور ضمیر خطاب کے مخاطب قریش ہیں۔ ان کو خطاب کر کے کیا جا رہا ہے کہ پیغمبر ﷺ جو تمہارے اپنے دن رات کے ساتھی ہیں تمہارے لیے کوئی اجنبی نہیں ہیں۔ تم ان کے ماضی و حاضر، ان کے اخلاق و کردار اور ان کے رجحان و ذوق سے اچھی طرح واقف ہو۔ تم نے کب ان کے اندر کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے یہ شبہ بھی ہو سکے کہ ان میں کہانت یا نجوم کا کوئی میلان پایا جاتا ہے۔ اس طرح کا ذوق کسی کے اندر ہوتا ہے تو دن رات کے ساتھیوں سے وہ عمر بھر چھپا نہیں رہتا لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جو چیز اتنی مدت تک تم نے ان کے اندر کبھی محسوس نہیں کی اب جب انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور تم کو اللہ کا کلام سنایا تو تم نے ان کو کاہن اور نجومی کہنا شروع کردیا حالانکہ ان کی زندگی اور ان کا کلام شاہد ہے کہ ان کے اندر کسی ضلالت یا غوایت کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ (وما ینطق عن الھوی) عن۔ یہاں منبع و منشا کا سراغ دینے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو کلام وہ تمہارے سامنے پیش کر رے ہیں اس کا کوئی تعلق نفس اور اس کی خواہشوں سے نہیں ہے بلکہ یہ تمام تر وحی ہے جو ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری ہدایت کے لیے اتاری جارہی ہے۔ اس ٹکڑے میں کاہنوں اور نجومیوں پر تعریض ہے کہ ان کا کلام تو تمام تر ان کے نفس کی تحریک سے پیدا ہوتا ہے لیکن اس کلام کا منبع ومصدر اور ہے۔ جو ہر جام جم از کان جہان در گراست اس آیت میں اصلاً تو بیان قرآن کا ہے جو نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کی وحت کی حیثیت سے پیش کر رہے تھے چناچہ آگے کی آیت ان ھو الا وحی یوحی سے اس کی وضاحت بھی ہوگئی ہے، لیکن نبی چونکہ معصوم اور اس کا ہر قول و فعل لوگوں کے لیے نمونہ ہوتا ہے اس وجہ سے عام زندگی میں بھی اس کی کوئی بات حق و عدل سے ہٹی ہوئی نہیں ہوتی اور اگر کبھی اس سے کوئی فروگزداشت صادر ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح فرما دیتا ہے
Top