Tadabbur-e-Quran - An-Najm : 43
وَ اَنَّهٗ هُوَ اَضْحَكَ وَ اَبْكٰىۙ
وَاَنَّهٗ : اور بیشک اس نے هُوَ اَضْحَكَ : وہی ہے جس نے ہنسایا وَاَبْكٰى : اور رلایا
اور بیشک وہی ہے جو ہنساتا اور لاتا ہے
(وانہ ھوا اضحک وابکی وانہ ھو امات واحیا وانہ خلق الزوجین الذکر والانثی من نطفہ اذا تمنی وان علیہ النشاۃ الاخری) (43، 47) یہ دلیل بیان ہوئی ہے اس بات کی کہ کیوں سب کا مولیٰ و مرجع اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ فرمایا کہ وہی ہے جس کے اختیار میں ہنسانا بھی ہے اور رلانا بھی، یعنی وہی خوشی کے اسباب بھی پیدا کرتا ہے اور وہی غم کے اسباب سے بھی دوچار کرتا ہے۔ اسی کے اختیار میں سکھ بھی ہے اور اسی کے اختیار میں دکھ بھی۔ رنج و غم اور نفع و فہ سب اسی کے اختیار میں ہے تو اس کے سوا کوئی دوسرا کس حق کی بناء پر مولیٰ و مرجع بن جائے گا ؟ اسی طرح وہی موت دیتا ہے اور وہی زندگی بخشتا ہے۔ تو جب کسی دوسرے کو نہ موت کے معاملے میں کوئی دخل نہ زندگی کے معاملے میں کوئی اختیار تو اس کے سوا کسی اور کو مولیٰ و مرجع بنانے کے کیا معنی ؟ اسی نے جوڑے کے دونوں فرد مرد اور عورت پیدا کیے۔ یہ نہیں ہوا ہے کہ مرد کو تو کسی نے پیدا کیا ہو اور عورت کہیں اور سے وجود میں آئی ہو، بیٹے کوئی بخشتا ہو اور بیٹیاں کہیں اور سے آدھمکتی ہوں۔ تو جب اس طرح کی کسی تقسیم کا امکان عورت اور مرد کی پیدائش میں نہیں ہے تو کسی اور کے مرجع بنانے کے کیا معنی ؟ ان کی پیدائش پانی کی ایک بوند سے ہوتی ہے جو ٹپکا دی جاتی ہے۔ اس ٹپکا دینے کے بعد کسی کو بھی پتہ نہیں کہ اس کی نشوونما کس شکل میں ہوگی۔ اس سے لڑکی پیدا ہوگی یا لڑکا، اس کی تکمیل ہوگی یا نہ نا تمام ہی رہے گا ؟ اس کو شکل و صورت کیسی ملے گی ؟ ان باتوں میں سے کسی بات کا بھی کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔ یہ ساری باتیں صرف وہ خالق وعلیم ہی جانتا ہے جو گو نا گوں پر دوں کے اندر پانی کی اس بوند کی پرورش کرتا اور ایک معین مدت کے بعد اس کو ظہور میں لاتا اور پھر اس کو ایک مرد یا عورت کی حیثیت سے پروان چڑھاتا ہے۔ جب یہ سارے کام خدا ہی کے اختیار میں ہیں تو اولاد کے لئے درخواست کیوں اور سے کیوں کی جائے۔ (وان علیہ النشاۃ الاخری) یعنی جب خدا ہی سب کو پانی کی ایک بوند سے پیدا کرتا ہے تو اس کے لیے دوبارہ پیدا کرنا کیوں دشوار ہوجائے گا ؟ اس کا ممکن ہونا بھی واضح ہے اور خدا کے عدل اور اس کی رحمت کے ظہور کے لیے اس کی ضرورت بھی واضح ہے۔ تو جب یہ دونوں باتیں واضح ہیں تو اللہ تعالیٰ کی حکمت واجب کرتی ہے کہ وہ ایک ایسا دن ضرور لائے جس میں سب کو اٹھا کھڑا کرے۔ ان کی نیکی اور بدی کو جانچے اور ان کے اعمال کے اعتبار سے ان کو جزاء و سزا دے۔ یہ ساری باتیں معمولی تغیر الفاظ کے ساتھ حضرت ابراہیم ؑ کے اس اعلان برأت میں بھی موجود ہیں جو انہوں نے اپنی قوم سے علیحدگی کے وقت کیا ہے۔ سورة شعراء میں یہ یوں نقل ہوا ہے۔ (الشعراء : 78۔ 82)۔۔۔۔۔ (جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہ میری رہنمائی فرماتا ہے اور وہ کہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو مجھے شفابخشتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا، پھر زندہ کرے گا اور وہ کہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ جزاء کے دن میری خطائیں بخشے گا۔)
Top