Tadabbur-e-Quran - An-Najm : 54
فَغَشّٰىهَا مَا غَشّٰىۚ
فَغَشّٰىهَا : تو ڈھانکا اس کو مَا غَشّٰى : جس چیز نے ڈھانکا
پس ان کو ڈھانک لیا جس چیز نے ڈھانک لیا
(فبای الا ربک تتماوی) (55) (لسان العرب، جلد 1، صفحہ 291) (قریش کو میں حیث الجماعت ملامت)۔ یہ خطاب قریش سے ہے۔ ضمیر اگرچہ واحد ہے لیکن مخاطب پوری جماعت ہے۔ جب جماعت کو واحد کے صیغہ یا ضمیر سے خطاب کرتے ہوئے تو مقصود جماعت کے ایک ایک فرد کو متنبہ کرنا ہوتا ہے۔ یہاں یہی صورت ہے منکرین کو فرداً فرداً خطاب کر کے ملامت فرمائی ہے کہ جزاء و سزا کے یہ سارے دلائل جو عقل سے، نقل سے، موسیٰ ؑ و ابراہیم ؑ کے صحیفوں اور قوموں کی تاریخ سے بیان ہوئے ہیں، تمہارے سامنے ہیں تو بتائو اپنے رب کی کن کن نشانیوں کو جھٹلاتے اور ان کے باب میں جھگڑتے رہو گے۔ (الاء، الی) کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہمارے مفسرین و مترجمین نے عام طور پر نعمت کے لیے ہیں لیکن یہ اس الفاظ کا ادھورا مفہوم ہے۔ اس کے اصل معنی کرشمے، نشانیاں، عجائب قدرت، کارنامے، نوادر اور آثار حکمت کے ہیں۔ نعمتیں بھی چونکہ انہی کے تحت ہیں اس وجہ سے وہ بھی اس کے مفہوم میں داخل ہیں، لیکن ہر جگہ اس کا ترجمہ نعمت صحیح نہیں ہے اس لیے کہ نعمت کی طرح اللہ تعالیٰ کی نعمت کی نشانیاں بھی اس میں شامل ہیں۔ یہ لفظ سورة رحمان میں بار بار آیا ہے اور اس کے سارے پہلو اس میں واضح ہوگئے ہیں۔ وہاں ہم اس کی وضاحت اس کے مواقع استعمال اور کلام عرب کی روشنی میں کریں گے۔ استاد امام حمید الدین فراہی ؒ نے اپنی کتاب مفردات القرآن میں اس پر نہایت محققاز بحث کی ہے۔
Top