Tadabbur-e-Quran - Ar-Rahmaan : 19
مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِۙ
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ : اس نے چھوڑ دیا دو سمندروں کو يَلْتَقِيٰنِ : کہ دونوں باہم مل جائیں
اس نے چھوڑے دو دریار، دونوں ٹکراتے ہیں
(مرج البحرین یلتقین بنھما برزخ لا یبغین فبای الاء ربکما تکذبین) (19۔ 21) (توحید کی دلیل انسداد کا توافق کے پہلو سے)۔ یہ اوپر کے دعوائے توحید کی دلیل اس کائنات کے اضداد میں توافق کے پہلو سے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کے ہر گوشے میں بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے، طلوع کے ساتھ غروب، دن کے ساتھ رات اور سردی کے مقابل میں گرمی ہے تو اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس کے اندر مختلف ارادے اور مشتیں کار فرما ہیں۔ انسان اگر اس کی تہہ میں جھانک کر دیکھے تو معلوم ہوگا کہ اس کے ہر تضاد کے اندر نہایت گہرا توافق اور نہایت عمیق سازگاری ہے۔ ہر چیز اپنے مقابل کے ساتھ مل کر ایک بالا تر مقصد کی خدمت میں لگی ہوئی ہے جو اس بات کی شہادت ہے کہ در حقیقت ایک ہی ارادہ اس تمام کائنات پر حکمران ہے جو اس کے تمالی اضداد کی اپنی حکمت کے تحت کائنات کے مجموعی مفاد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ فرمایا کہ دیکھو، وہ دو دریائوں کو چھوڑتا ہے، ایک کھاری ہوتا ہے، دوسرا شیریں، دونوں آپس میں ٹکراتے ہیں لیکن خدائے قادر و حکیم دونوں کے درمیان ایک ایسا غیر مرئی پر دہ ڈال دیتا ہے کہ وہ دونوں ملتے بھی ہیں اور الگ الگ اپنے مزاج پر قائم بھی رہتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ کھاری دریا شیریں یا شیریں دریا کھاری بن جائے۔ اس سے معلومہوا کہ جو لوگ ظاہری تضاد کو دیکھ کر اس مغالطہ میں پڑگئے کہ اس کے اندر متضاد ارادے کار فرما ہیں اور پھر انہوں نے اپنے اپنے تصور کے مطابق اپنے الگ الگ دیوتا بنا لیے ان کی نظر اس توافق پر نہیں پڑی جو ہر تضاد کے اندر موجود ہے اور جو توحید کی سب سے بڑی حجت ہے۔ آخر میں وہی ترجیح ہے جو اوپر گزرچکی ہے۔ یعنی ان روشن شواہد کے بعد بھی اگر اس مغالطہ میں مبتلا ہوا کہ خدا نے تم کو پکڑا تو تمہارے دیوی دیو تاتم کو بچا لیں گے، تو آخر اپنے رب کی کن کن نشانیوں کو جھٹلائو گے۔
Top