Tadabbur-e-Quran - Ar-Rahmaan : 35
یُرْسَلُ عَلَیْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ١ۙ۬ وَّ نُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرٰنِۚ
يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا : چھوڑ دیا جائے گا تم پر شُوَاظٌ : شعلہ مِّنْ نَّارٍ : آگ میں سے وَّنُحَاسٌ : اور دھواں فَلَا تَنْتَصِرٰنِ : تو نہ تم دونوں مقابلہ کرسکو گے
تم پر مارے جائیں گے آگ کے شعلے اور تانبے تو تم اپنا بچائو نہ کر پائو گے۔
(یرسل علیکما شواظ من نار ونحاس فلا تنتصران فبای الا ربکما تکذبن) (35۔ 36) (یعنی اگر تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کے مقرر حدود سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا تو اس پر آگ کے شعلوں اور پگھلے ہوئے تانبے کی مار پڑے گی اور وہ ایسی بےپناہ ہوگی کہ تم میں سے کوئی بھی اس سے اپنا بچائو نہیں کرسکے گا۔) (شواظ من نار) سے مراد شہاب ثاقب ہیں جن کے متعلق قرآن مجید میں تصریح ہے کہ یہ ان شیاطین جن پر پھینکے جاتے ہیں جو ملاء اعلیٰ کے حدود میں دراندازی اور غیب کی باتوں کی ٹوہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن میں خود جنوں کی زبان سے اس امر واقعی کا اعتراف یوں نقل ہوا ہے (۔۔۔۔۔ الجن : 12۔۔) (اور ہم نے اچھی طرح اندازہ کرلیا ہے کہ نہ ہم زمین میں چھپ کر اللہ کی گرفت سے بچ سکتے ہیں نہ آسمانوں میں بھاگ کر اس سے نکل سکتے)۔ (مفسرین کی ایک غلط فہمی)۔ نحاس کے معنی عام طور پر ہمارے مفسرین و مترجمین نے دھوئیں کے لیے ہیں لیکن یہ لفظ اس معنی میں معروف نہیں ہے۔ بعض اہل لغت نے اگرچہ ایک شاذ معنی کی حیثیت سے اس کا ذکر کیا ہے اور بالغہ کے ایک شعور کا بھی حوالہ دیا ہے لیکن اول تو وہ شعر محل نظر ہے دوسرے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ دھوئیں کے لیے معروف لفظ ’ دخاز ‘ چھوڑ کر، جو قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے، ایک غیر معروف لفظ لانے کی وجہ کیا ہے جب کہ قرآن عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔ اس وجہ سے ہم کو ’ نحاس ‘ کے یہ معنی قبول کرنے میں تردد ہے۔ ہمارے نزدیک یہ اپنے معروف معنی ہی میں استعمال ہوا ہے اور یہ انہی شہادتوں کی ایک قسم ہے جن کا ذکر (شواط من نار) کے الفاظ سے ہوا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ سائنس کی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بیشتر شہا بیے تو گرتے ہی فضا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ یہ بڑے بڑے غلزآتی اور حجری گونوں کی شکل میں گرتے ہیں لیکن اشیاء کی حر کی توانائی (Kinetic Energy) غلاف جوی میں داخل ہوتے ہی زیادہ تر حرارت میں تبدیل ہوجاتی ہے جس سے شہاب پگھل کر آگ کے گولوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور زمین کی طرف گرنے کے دوران ان کا فلزاتی اور حجری مادہ بڑی حد تک ضائع ہوجاتا یا عمل تجیرا سے غباء کی شکل میں تبدیل کردیتا ہے۔ تاہم جو شہاب زمین پر پائے گئے ہیں ان کو تین گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ 1۔ فلزاتی شہاب (Siderites) 2۔ حجری شہاب (Aerolites) 3۔ حجری، فلزاقی شہاب (Siderolgtes) ان شہادبوں کے اندر جس طرح لوہے اور پتھر کے اجزاء پائے گئے ہیں اسی طرح تحقیق سے ان کے اندر کانسی اور تانبے کے اجزاء بھی پائے گئے ہیں جس کا آیت زیر بحث میں نحاس کے لفظ سے ذکر آیا ہے۔ یہ فلزاتی اجزاء زیادہ تر شدت حرارت سے تحلیل ہوجانے والے ہیں تاہم زمین پر گرنے والوں شہابوں میں ان کا پایا جانا قرآن کی بات کی تصدیق کرتا ہے۔
Top