Tadabbur-e-Quran - Ar-Rahmaan : 56
فِیْهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ١ۙ لَمْ یَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَ لَا جَآنٌّۚ
فِيْهِنَّ : ان میں ہوں گی قٰصِرٰتُ : جھکانے والیاں الطَّرْفِ ۙ : نگاہوں کو لَمْ يَطْمِثْهُنَّ : نہیں چھوا ہوگا ان کو اِنْسٌ : کسی انسان نے قَبْلَهُمْ : ان سے پہلے وَلَا جَآنٌّ : اور نہ کسی جن نے
ان میں باحیا حوریں ہوں گی جن کو ان سے پہلے کسی انسان یا جن نے ہاتھ نہیں لگایا ہوگا۔
(فیھن قصرت الطرف لم یطمثھن انس قبلھم ولا جان، فبای الاء ربکما تکذبن، کا نھن الیاقوت والمرجان، فبای الاء ربکما تکذبین) (56۔ 59) (فیھن) میں ضمیر جمع کا مرجمع وہ تمام نعمتیں بھی ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے اور جنت کے وہ تمام لان، چمن اور محل بھی جو لفظوں میں مذکورہ نہ سہی لیکن لوازم کی حیثیت سے وہ بدیہی طور پر سمجھے جاتے ہیں۔ عربی میں اس طرح ضمیروں کا استعمال معروف ہے۔ اس کی مثالیں اس کتاب میں پیچھے گزر چکی ہیں۔ فرمایا کہ عیش دوام کے ان باغوں اور سامانوں کے اندران کے لیے شرمیلی اور با حیا نازنینیں بھی ہوں گی۔ انسان کی فطرت کچھ ایسی بنی ہوئی ہے کہ وہ چیز چیزوں سے اس وقت تک اچھی طرح لطف اندوز نہیں ہوسکتا جب تک بیوی اس کے ساتھ نہ ہو جس کو قدرت نے اس کا شریک رنج و راحت بنایا ہے چناچہ تعریف میں فرمایا ہے کہ وہ نہایت شرمیلی اور باچیا ہوں گی۔ عورت کا یہ شرمیلا پن اس کا سب سے بڑا حسن بھی ہے اور اس کے اخلاق کا سب سے بڑا محافظ بھی۔ جو عورت شرمیلی نہیں ہے ہر جائی ہے۔ ہر جائی کسی کی وفادار نہیں ہو سکتی اور جب وہ وفادار نہیں ہو سکتی تو ایک عورت کی حیثیت سے اس کا وجود بےمقصد ہے اس لیے کہ وہ کسی خاندان کی تعمیر میں بنیاد کی اینٹ کا کام نہیں دے سکتی درآنحالیکہ یہی عورت کے وجود کی غایت ہے۔ (لم یطمتھن انس قبلھم ولا جان) یہ ان کے شوہر نا آشنا ہونے اور کنوارا پن کی تعبیر ہے۔ یاقوت اور مرجان سے ان کی تشبیہ ان کے حس اور ان کی عصمت و محفوظیت کے بیان کے لیے ہے۔ ان صفتوں کے بعد بھی ترجیح والی آیت آئی ہے اور اس کا موقع و محل واضح ہے۔
Top