Tadabbur-e-Quran - Ar-Rahmaan : 9
وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ
وَاَقِيْمُوا : اور قائم کرو۔ تولو الْوَزْنَ : وزن کو بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَلَا : اور نہ تُخْسِرُوا : خسارہ کر کے دو ۔ نقصان دو الْمِيْزَانَ : میزان میں۔ ترازو میں
اور ٹھیک تولو پورے انصاف کے ساتھ اور وزن میں کمی نہ کرو۔
(واقیموا الوزن بالقسط والا تخسرو المیزان) (9)۔ اوپروالی بات ایک کلیہ کی حیثیت سے بیان ہوئی تھی۔ اس کلیہ پر مبنی ایک دوسری حقیقت کی طرف توجہ دلائی جس کا تعلق ہماری روزمرہ زندگی سے ہے۔ فرمایا کہ جس خدا کے بنائے ہوئے آسمان کی چھت کے نیچے رہتے ہو جب وہ میزان رکھنے والا اور عدل پسند ہے تو اس کی دنیا میں ڈنڈی ماری کی زندگی نہ بسر کرو بلکہ ناپ تول میں پورے انصاف کے ساتھ وزن کو قائم رکھو اور ہرگز تول میں کوئی کمی نہ کرو۔ قوم شعیب کی سر گزشت کے سلسلہ میں ہم اس حقیقت کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ ناپ تول میں کمی کوئی منفرد برائی نہیں ہے بلکہ یہ پورے نظام تمدن میں فساد کی ایک خوفناک علامت ہے۔ یہاں ایک مزید حقیقت واضح ہوئی کہ یہ برائی در حقیقت اس میزان کے منافی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین قائم فرمائے ہیں۔ اگر کوئی قوم اس فساد کو قبول کرلیتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ اس بنیاد ہی کے ڈھا دینے کے درپے ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اس عالم کی تعمیر فرمائی ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بنائی ہوئی زمین پر ایسے لوگوں کو کبھی گوارا نہیں کرسکتا۔ یہاں یہ چیز بھی قابل غور ہے کہ ایک ہی بات مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں سے فرمائی گئی ہے۔ قرآن مجید پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسلوب ان مواقع پر اختیار فرمایا گیا ہے جہاں اصل حکم کی خلاف ورزی نہایت خطرناک نتائج پر منتہی کرسکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ناپ تول میں کامل انصاف کا حکم ایک عظیم حکم ہے۔ یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس میزان عدل کی ایک فرع ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اس عالم کا نظام قائم فرمایا ہے اور یہیں سے یہ بات بھی نکلی کہ جو قوم اس میں فساد برپا کردیتی ہے وہ سارے نظام تمدن میں فساد برپا کردیتی ہے۔
Top