Tadabbur-e-Quran - Al-Hadid : 11
مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ كَرِیْمٌۚ
مَنْ ذَا الَّذِيْ : کون ہے جو يُقْرِضُ اللّٰهَ : قرض دے گا اللہ کو قَرْضًا حَسَنًا : قرض حسنہ فَيُضٰعِفَهٗ : پھر وہ دوگنا کرے گا اس کو لَهٗ : اس کے لیے وَلَهٗٓ اَجْرٌ : اور اس کے لیے اجر ہے كَرِيْمٌ : عزت والا
کون اٹھتا ہے کہ اللہ کو قرض دے اچھا قرض کہ وہ اس کو اس کے لیے بڑھائے اور اس کے لیے با عزت صلہ ہے !
(من ذا الذی یقرمن اللہ قرضا حسنا فیضعفہ لہ ولہ اجر کریم (11) (جہاد کے لیے مالی امانت کی نہایت موثر اپیل)۔ اب یہ نہایت واضح اور موثر الفاظ میں جہاد کے لیے مالی اعانت کی اپیل ہے کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دینے کے لیے اٹھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھائے اور اس کو با عزت اجر عطا فرمائے۔ لفظ ’ فرض ‘ سے اگرچہ عام انفاق بھی مراد ہوسکتا ہے لیکن یہاں سیاق وسباق سے واضح ہے کہ اس سے جہاد کے لیے مالی اعانت ہی مراد ہے۔ آگے ہم اس کے بعض قرآئن کی طرف انشاء اللہ اشارہ کریں گے۔ انفاق فی سبیل اللہ کے لیے قرض کے لیے لفظ میں جو اپیل ہے وہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔ اوپر واضح ہوچکا ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی سپرد کردہ امانت ہے۔ اب یہ کتنا بڑا فضل ہے اس رب کریم کا کہ وہ اپنا ہی عطا کیا ہوا مال اپنی راہ میں خرچ کرنے کی جب بندوں کو دعوت دیتا ہے تو اس کو اپنے ذمہ قرض ٹھہراتا ہے جس کی واپسی کا وہ گویا اسی طرح ذمہ دار ہے جس طرح ایک قرض دار اپنے مہاجن کی رقم کی واپسی کا ذمہ دارہوتا ہے۔ (نبضعفہ) یعنی اللہ تعالیٰ یہ قرض اس لیے نہیں مانگ رہا ہے کہ اس کے خزانے میں کوئی کمی ہے۔ جب سب کچھ اسی کا پیدا کردہ اور اسی کا عطا کردہ ہے تو اس کے پاس کمی کا کیا سوال ؟ بلکہ وہ تو صرف اس لیے مانگ رہا ہے کہ لوگوں کے عطا کردہ مال کو وہ اپنے بنک میں جمع کر کے اس کو اچھی طرح بڑھائے تاکہ اس کا منافع ایک ابدی زندگی میں ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سرمایہ کی صورت میں ان کے کام آئے۔ اس اسلوب بیان میں سود خواروں پر جو تعریفیں ہے وہ اہل ذوق سے مخفی نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو اپنا سرمایہ اس دنیا کے بنک میں جمع کرتا ہے تو یہ دنیا اور اس کا سرمایہ ہر چیز چند روزہ ہے البتہ جو اپنا مال اپنے رب کے پاس جمع کرتے ہیں ان کا منافع ابدی اور ہر اندیشہ سے محفوظ ہے۔ (مضاعفۃ) کا ترجمہ عام طور پر لوگوں نے دگنا کرنا کیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ اس کے معنی بڑھانے کے ہیں۔ یہ بڑھانا دگنا، چوگنا، دس گنا بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔ اس کا تعلق دینے والے کے خلوص اور ان حالات سے ہے جن میں وہ مال دیا گیا ہے اور سب سے زیادہ اس رب کریم کے فضل سے ہے جس نے اپنے بندوں کے لیے ابدی منفعت کی راہ کھولی ہے۔ (قرض حسن کے شرائط)۔ اس کے ساتھ یہاں صرف ایک شرط لگائی ہے کہ یہ قرض ’ قرض حسن ‘ ہو۔ قرآن میں اس کی وضاحت میں جو باتیں فرمائی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرض، قرض حسن، اس شکل میں بنتا ہے جب دل کی پوری فراخی اور بلندی حوصلگی کے ساتھ دیا جاتا ہے، دل کی تنگی کے ساتھ محض مادے باندھے یا دکھاوے کے لیے نہیں دیا جاتا، اچھے مال میں سے دیا جاتا ہے، محض چھدا اتارنے کی کوشش نہیں کی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جاتا ہے، کسی غرض دنیوی کے لیے نہ دیا جاتا ہے اور نہ دینے کے بعد اس کے دیے جانے پر احساس جتایا جاتا ہے یا کسی پہلو سے کوئی دل آزادی کی جاتی ہے۔ (ولہ اجر کریم) یعنی اس کے دیے ہوئے مال میں جو بڑھوتری ہوگی وہ تو ہوگی ہی، علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ خاص اپنے فضل سے بھی اس کو نہایت با عزت اجر دے گا۔ اس کی وضاحت آگے آرہی ہے۔
Top