Tadabbur-e-Quran - Al-Hadid : 14
یُنَادُوْنَهُمْ اَلَمْ نَكُنْ مَّعَكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى وَ لٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَكُمْ وَ تَرَبَّصْتُمْ وَ ارْتَبْتُمْ وَ غَرَّتْكُمُ الْاَمَانِیُّ حَتّٰى جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ وَ غَرَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ
يُنَادُوْنَهُمْ : وہ پکاریں گے ان کو اَلَمْ : کیا نہ نَكُنْ : تھے ہم مَّعَكُمْ ۭ : تمہارے ساتھ قَالُوْا : وہ کہیں گے بَلٰى : کیوں نہیں وَلٰكِنَّكُمْ : لیکن تم نے فَتَنْتُمْ : فتنے میں ڈالا تم نے اَنْفُسَكُمْ : اپنے نفسوں کو وَتَرَبَّصْتُمْ : اور موقعہ پرستی کی تم نے وَارْتَبْتُمْ : اور شک میں پڑے رہے تم وَغَرَّتْكُمُ : اور دھوکے میں ڈالا تم کو الْاَمَانِيُّ : خواہشات نے حَتّٰى جَآءَ : یہاں تک کہ آگیا اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا فیصلہ وَغَرَّكُمْ : اور دھوکے میں ڈالا تم کو بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الْغَرُوْرُ : بڑے دھوکے باز نے
یہ ان سے فریاد کریں گے کہ کیا ہم آپ لوگوں کے ساتھ نہیں تھے ؟ وہ جواب دیں گے کہ ساتھ تو تھے لیکن تم نے اپنے کو فتنوں میں مبتلا رکھا، ہمارے لیے گردشوں کے انتظار میں رہے، شبہات میں مبتلا رہے اور آرزوئوں نے تمہیں دھوکے میں رکھا یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ظاہرہو گیا اور فریب دینے والے نے تمہیں اللہ کے باب میں مبتلائے فریب ہی رکھا۔
(ینا دونھم الم نکن معکم قالوا بلی ولنکنکم فتنتم انفسکم و تربصتم و ارتبتم و غرتکم الا مانی حتی جاء امرا للہ و غر کم باللہ الغرور) (14) (منافقین کی فریاد اور ان کو جواب)۔ منافقین جب دیکھیں گے کہ روشنی کی جو جھلک نظر آئی تھی وہ بھی اور جھل ہوگئی اور جن کے ساتھ دنیا میں رہے ان سے بالکل ہی رابطہ ٹوٹ گیا تو وہ دل شکستہ ہو کر فریاد کریں گے کہ بھائیو، آپ لوگوں نے ہمیں بالکل ہی کاٹ پھینکا، کیا دنیا میں ہم آپ لوگوں کے ساتھ نہیں رہے بسے ! اپنے بھائیوں سے یہ بےاعتنائی و بےپروائی ! ! جواب ملے گا کہ اس میں تو شبہ نہیں کہ دنیا میں تم لوگ بظاہر ہمارے ہی ساتھ رہے لیکن تمہارے دل ہمارے ساتھ نہیں تھے بلکہ تم انہی فتنوں میں مبتلا رہے جن سے اللہ نے تم کو نکالنا چاہا۔ تم نے ایمان کا دعویٰ بڑی بلند آہنگی سے کیا لیکن اس ایمان کے جتنے مطالبے تمہارے سامنے آئے ان میں سے ایک کو بھی پورا کرنے کا حوصلہ تم نے نہیں کیا۔ اپنے مال اور اپنی جان کو اللہ کے دین اور اس کے رسول سے تم نے زیادہ عزیز جانا، تمہاری وفاداریاں اسلام کے دشمنوں کے ساتھ رہیں اور حق کی جگہ ہمیشہ اپنے مفاد ذاتی کو تم نے ترجیح دی۔ (و تربصتم) یعنی تم برابر ہمارے لیے گردشوں اور آفتوں کے منتظر رہے۔ سورة توبہ میں ان منافقین کا کردار ان الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ (ومن الاعراب من یتخذما ینفق مغرما و یتربص بکم الدوائر (التوبۃ : 9 : 98) (اور ان بدوی منافقین میں وہ بھی ہیں جو اگر کبھی اسلام کی راہ میں کچھ خرچ کر بیٹھتے ہیں تو اس کو اپنے اوپر ایک تاوان خیال کرتے ہیں اور تمہارے لیے برابر گردشوں کے انتظار میں رہتے ہیں) انہی لوگوں کا کردار سورة نساء میں یوں بیان ہوا ہے۔ (الذین یتربصون بکم فان گان لکم فتح من اللہ قالوا الم نکن معکم) (النساء : 4، 14) (جن کا حال یہ ہے کہ وہ تمہارے لیے منتظر تو رہتے ہیں شکست کے لیکن ان کے علی الرغم اگر اللہ تمہیں فتح دے دیتا ہے تو غنیمت کی طمع میں بھاگے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا ہم آپ لوگوں کے ساتھ نہیں رہے ہیں ؟) (وارتبتم) یعنی تم برابر شک اور تذبذب میں مبتلا رہے۔ اسلام اور پیغمبر ﷺ کی حقانیت پر کبھی تمہارا دل نہیں جما۔ تم نے کفر اور اسلام دونوں سے تھوڑا تھوڑا تعلق جوڑے رکھنا چاہا کہ اس کشمکش میں جس کو غلبہ حاصل ہوا اپنا مستقبل اس کے ساتھ وابستہ کرلو گے۔ اس ذہنی کیفیت کی تصویردوسرے مقام میں اس طرح کھینچی گئی ہے (مذبذبین بین ذلک لا الی ھولاء ولا الی ھولاء) (النساء : 4، 143) (ان دونوں کے درمیان مذبذب، نہ یکسوئی کے ساتھ ادھر نہ یکسوئی کے ساتھ ادھر۔) (وعزتکم الامانفی حتی جاء امر اللہ وغر کم باللہ الغرور) یعنی تم جھوٹی آرزئوں میں برابر پھنسے رہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں جو ڈھیل ملی تو تم اس دھوکے میں مبتلا ہوگئے کہ تمہاری یہ دو رخی پالیسی کامیاب ہے اور اس کو تم آخر تک کامیابی کے ساتھ بناہ لے جائو گے لیکن یہ آرزو پوری نہ ہوسکی۔ شیطان نے تمہیں دھوکے ہی میں رکھا اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ حق کو غالب کرنے کے لیے صادر ہوگیا اور تمہیں یہ روز بد دیکھنا پڑا۔ (وغر کم باللہ الغرور) میں لفظ غرور شیطان کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اللہ کے باب میں دھوکے میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں یہ آگاہی جودی جاتی رہی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول اتمام حجت کے لیے بھیج دیا ہے، جو لوگ اس کے بعد بھی اپنے کفر پر اڑے رہیں گے یا نفاق کے پردے میں چھپنے کی کوشش کریں گے وہ لازماً خدا کی گرفت میں آجائیں گے، تو شیطان تم کو یہ سبق پڑھا دیتا تھا کہ یہ سب محض دھونس جمانے کی باتیں ہیں، جو نہ پہلے سچی ثابت ہوئی ہیں نہ آئندہ ہوں گی، ان سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
Top