Tadabbur-e-Quran - Al-Hashr : 8
لِلْفُقَرَآءِ الْمُهٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ اَمْوَالِهِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانًا وَّ یَنْصُرُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَۚ
لِلْفُقَرَآءِ : محتاجوں کیلئے الْمُهٰجِرِيْنَ : مہاجر (جمع) الَّذِيْنَ : وہ جو اُخْرِجُوْا : نکالے گئے مِنْ دِيَارِهِمْ : اپنے گھروں سے وَاَمْوَالِهِمْ : اور اپنے مالوں يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا، سے وَرِضْوَانًا : اور رضا وَّيَنْصُرُوْنَ : اور وہ مدد کرتے ہیں اللّٰهَ : اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ ۭ : اور اس کے رسول اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الصّٰدِقُوْنَ : سچے
یہ خاص طور پر ان محتاج مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنی املاک سے نکالے گئے ہیں اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب اور طلب اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہوئے، یہی لوگ اصل راستباز ہیں۔
(للفقراء المھجرین الذین اخرجوا من دیارھم واموالھم یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا ویتصرون اللہ ورسولہ اولیک ھم الصدقون) (8)۔ (اموال فے کا ایک ہنگامی مصرف)۔ اموال فے کا عام مصرف بتانے کے بعد یہ اس کے ایک خاص مصرف کی طرف اشارہ فرمایا جو وقت کا سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا مصرف اور تمام مسلمانوں کی یکساں توجہ کا مستحق تھا۔ یعنی مہاجرین کی امداد جو اس وقت ہر طرف سے اپنے گھروں سے اجڑ کھڑا کر مدینہ آ رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کو از سر نو بسانے اور ان کو معاشی زندگی کو پھر سے متحرک کرنے کی ذمہ داری اس چھوٹے سے اسلامی معاشرہ ہی پر عائد ہوتی تھی جو ابھی نیا نیا مدینہ کی سر زمین میں ابھر رہا تھا۔ یہ صورت بھی مقتضی تھی کہ اموال فے کو حکومت کی تحویل میں دیا جائے تاکہ اس طرح کے ملی مسائل کے حل کے لیے اس کے پاس وسائل موجود رہیں۔ (مہاجرین کی تعریف)۔ ان مہاجرین کی تعریف میں فرمایا کہ یہ لوگ اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے مجبور کر کے نکالے گئے ہیں اور انہوں نے اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب اور اللہ اور اس کے رسول کی نصرت کے مقصد سے اپنی املاک سے یہ محرومی اور اپنے گھر در سے یہ مجہوری برداشت کی ہے اس وجہ سے یہ مستحق ہیں کہ ان کے دینی بھائی پوری فراخ دلی اور سیر چشمی سے ان کی مدد کریں۔ (یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا) سے اشارہ اس ایمانی زادراہ کی طرف ہے جس کے اعتماد پر یہ مہاجرین اپنے گھروں اور اپنی املاک سے بغیر اس بات کی پروا کیے اٹھ کھڑے ہوئے کہ کیا کھائیں گے اور کہاں سر چھپائیں گے۔ اور (ینصرون اللہ ورسولہ) سے اس مقصد کی طرف اشارہ ہے جس مقصد عزیز کے لیے یہ بازی انہوں نے کھیلی۔ یعنی انہوں نے یہ چاہا کہ وہ اللہ کے رسول کے ہم رکاب رہیں تاکہ ہر قدم پر اللہ اور اس کے رسول کی مدد کے لیے سربکف رہ سکیں۔ (اولیک ھم الصدقون) فرمایا کہ یہی لوگ در حقیقت اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں کہ انہوں نے اللہ کی رضا طلبی اور رسول کی نصرت کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیا نہ کہ یہ منافقین جو مدعی تو ہیں ایمان کے لیکن اللہ کی راہ میں معمولی چوٹ کھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ بس یہ چاہتے ہیں کہ گھر بیٹھے بٹھائے انہیں لقمہ تر ہاتھ آتا رہے۔ ان منافقین ہی کے بارے میں آگے اسی سورة کی آیت 11 میں فرمایا ہے کہ (واللہ یشھد انھم لکذبون) (اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین بالکل جھوٹے ہیں)۔
Top