Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 123
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِیْ كُلِّ قَرْیَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِیْهَا لِیَمْكُرُوْا فِیْهَا١ؕ وَ مَا یَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنَا : ہم نے بنائے فِيْ : میں كُلِّ : ہر قَرْيَةٍ : بستی اَكٰبِرَ : بڑے مُجْرِمِيْهَا : اس کے مجرم لِيَمْكُرُوْا : تاکہ وہ حیلے کریں فِيْهَا : اس میں وَمَا : اور نہیں يَمْكُرُوْنَ : وہ حیلے کرتے اِلَّا : مگر بِاَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں پر وَمَا : اور نہیں يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور رکھتے
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے سرغنوں کو ڈھیل دی کہ اس میں اپنی چالیں چل لیں اور چال وہ اپنے ہی ساتھ چلتے تھے لیکن ان کو اس کا احساس نہیں تھا
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِيْهَا لِيَمْكُرُوْا فِيْهَا، جعلنا یہاں امہلنا کے مفہوم میں ہے اور کذالک کا اشارہ اس صورت حال کی طرف ہے جس کا ذکر اوپر آیت 121 میں فرمایا ہے۔ یہ اسی سنت اللہ کا بیان کسی قدر مختلف انداز میں ہوا ہے جو اوپر آیت 112 میں بیان ہوچکی ہے مطلب یہ ہے کہ یہ شیاطین جن و انس اس دعوت کی مخالفت میں جو ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے ہیں یہ کوئی نادر واقعہ نہیں ہے۔ کسی بستی میں جب دعوت حق بلند ہوتی ہے تو وہاں جو باطل کے علمبردار ہوتے ہیں اور جن کا اس باطل سے مفاد وابستہ ہوتا ہے اسی طرح اپنی تمام چالوں کے ساتھ اس کو دبانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی سنت کے مطابق ان کو بھی ایک خاص وقت تک ڈھیل دیتا ہے تاکہ جو کمائی وہ کرنا چاہتے ہیں کرلیں۔ وَمَا يَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ، یہاں مضارع سے پہلے فعل ناقص محذوف ہے۔ یعنی وہ تو چالیں حق کے خلاف چلتے تھے لیکن یہ چالیں انہیں کے خلاف پڑیں۔ حق کی مخالفت کرنے والے حق کو نہیں بلکہ خود اپنے کو تباہ کرتے ہیں لیکن چونکہ ان کے سامنے ان کا انجام نہیں ہوتا اسی وجہ سے ان کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ یہی حال قریش کے اکابر مجرمین کا ہے۔ یہ بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور بالآخر انہی کے انجام کو پہنچیں گے لیکن ان کو اس کا احساس نہیں ہورہا ہے۔
Top