Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 42
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰۤى اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَاَخَذْنٰهُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ اَرْسَلْنَآ : تحقیق ہم نے بھیجے (رسول) اِلٰٓى : طرف اُمَمٍ : امتیں مِّنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے فَاَخَذْنٰهُمْ : پس ہم نے انہیں پکڑا بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَضَرَّعُوْنَ : تاکہ وہ عاجزی کریں
اور ہم نے تم سے پہلے بھی بہت سی امتوں کے پاس اپن رسول بھیجے پس ان کو مالی اور جسمانی تکالیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ خدا کے آگے جھکیں۔
42 تا 43: وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓى اُمَمٍ الایۃ۔ تضرء کے معنی تذلل کے ہیں یعنی خضوع و خشوع اور احساسِ عجز و فروتنی کے ساتھ کسی کی طرف جھکنا یہاں یہ لفظ دل کی خشیت اور احساس عبدیت وانابت کے ساتھ خدا کی طرف جھکنے کے لیے آیا ہے۔ اس کا مقابل لفظ قساوت استعمال ہوا ہے جو دل کی سختی، بےخوفی اور رعونت کی تعبیر کے لیے قرآن کا معروف لفظ ہے کسی قوم پر عذاب بھیجنے کے معاملہ میں سنت الٰہی : اب یہ ایک سنت اللہ بیان ہوئی ہے جس سے ایک طرف تو یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ کسی قوم پر، جس میں اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیجتا ہے، عذاب بھیجنے کے معاملے میں وہ کیا طریقہ اختیار فرماتا ہے، دوسرے اس تاریخی شہادت کو سامنے لانا ہے کہ جس قوم نے بھی ایمان لانے کی شرط نشانی عذاب کو ٹھہرایا اس کو ایمان کی سعادت حاصل نہیں بلکہ بالاخر عذاب ہی کے ذریعہ سے اس کی جڑ کاٹ دی گئی۔ فرمایا کہ تم سے پہلے (خطاب نبی ﷺ سے ہے) ہم نے بہت سی قوموں کے پاس اپنے رسول بھیجے تو ان کو مختلف قسم کی مالی و جسمانی مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ ان کے دلوں میں خدا کا خوف پیدا ہو اور وہ سوچیں کہ اگر انہوں نے نبی کی بات نہ مانی تو بالآخر خدا کی فیصلہ کن پکڑ آجائے گی اور وہ تباہ کردیے جائیں گے لیکن دیکھ لو، تاریخ شاہد ہے، کہ بجائے اس کے کہ ان خدائی تنبیہات سے ان کے دل کچھ نرم پڑتے وہ اور زیادہ سخت ہوگئے اور جن بد اعمالیوں میں وہ مبتلا تھے شیطان نے ان کو ان کی نگاہوں میں اس طرھ کھبا دیا کہ وہ ان سے باز آنے کے بجائے ان میں کچھ اور دلیر ہوگئے۔
Top