Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 52
وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ١ؕ مَا عَلَیْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ مَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَیْهِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَ : اور لَا تَطْرُدِ : دور نہ کریں آپ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَدْعُوْنَ : پکارتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب بِالْغَدٰوةِ : صبح وَالْعَشِيِّ : اور شام يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَجْهَهٗ : اس کا رخ (رضا) مَا : نہیں عَلَيْكَ : آپ پر مِنْ : سے حِسَابِهِمْ : ان کا حساب مِّنْ شَيْءٍ : کچھ وَّ : اور مَا : نہیں مِنْ : سے حِسَابِكَ : آپ کا حساب عَلَيْهِمْ : ان پر مِّنْ شَيْءٍ : کچھ فَتَطْرُدَهُمْ : کہ تم انہیں دور کردو گے فَتَكُوْنَ : تو ہوجاؤ مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور تم ان لوگوں کو اپنے دور نہ کیجیو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی خوشنودی چاہتے ہوئے۔ ان کی ذمہ داری کا کوئی حصہ تم پر نہیں اور نہ تمہاری ذمہ داری کا کوئی حصہ ان پر ہے کہ تم ان کو اپنے سے دور کر کے ظالموں میں سے بن جاؤ۔
سرداران قریش کے غرور پر ضرب : اوپر کی آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ پیغبر کو کن لوگوں کے ساتھ مشغول ہونا چاہیے اور کن لوگوں سے بےپروا ہوجانا چاہیے۔ اب یہ اس بات کی مزید وضاحت ہو رہی ہے کہ جو شامت زدہ لوگ اپنے غرور مال و جاہ میں مست ہیں تمہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے کہ تم خزانوں کے مالک نہیں۔ تمہارے ساتھیوں کو اس وجہ سے حقیر سمجھتے ہیں کہ وہ بےنوا، غریب، مفلس اور عزت وجاہ سے محروم لوگ ہیں، ان کے پیچھے اپنا وقت ضائع نہ کرو اور ان کے ایمان کی فکر میں ان لوگوں کے حقوق میں غفلت نہ ہو جو اللہ کی آیات پر ایمان لائے اور صبح و شام اس کی عبادت وطاعت میں سرگرم ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قریش کے اکابر آنحضرت ﷺ کی دعوت کی مخالفت کے جہاں وہ بہانے پیدا کرتے تھے جن کی طرف اوپر اشارہ ہوا وہیں یہ دلیل بھی لاتے تھے کہ آپ کے ساتھی بالکل غربا اور عوام کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں غلا اور لونڈیاں بھی شامل ہیں۔ اول تو یہ دین، اگر اللہ کا دین ہوتا، تو کیا اللہ اپنے دین کے لیے (نعوذ باللہ) انہی اراذل و انفار کو منتخب کرتا اور اگر یہی لوگ اس کے حامل قرار پائے ہیں تو پھر کسی شریف کے لیے کہاں گنجائش باقی رہی کہ ان کے اندر شامل ہو کر اپنی عزت خاک میں ملائے، ان کی اس ذہنیت کو سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو ہدایت فرمائی کہ ان کو پانے کے لیے تم اپنوں کو کھونے کی غلطی نہ کرنا، کھوئی ہوئی آوارہ بھیڑوں کی جستجو میں اپنے اصلی گلہ سے غفلت نہ ہونے پائے۔ تم نے ان کو اللہ کی دعوت پہنچا دی۔ اب اگر یہ اپنی گمراہی میں پڑے رہے تو اس کی پرسش خدا کے ہاں بہرحال تم سے نہیں ہوگی۔ اب مواخذہ انہی سے ہونا ہے۔ ان کے حساب کی کوئی زمہ داری تم پر نہیں ہے اور اگر ان کے پیچھے تم نے ان اللہ کے بندوں سے بےپروائی کی تو کل کو تمہاری طرف سے یہ جواب دہ بننے والے نہیں ہیں کہ تم ان کی خاطر اپنے کو ظالموں میں شامل کرلو۔ آنحضرت ﷺ کو یہ ہدایت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ آپ سے یہ اندیشہ تھا کہ آپ اپنے ان ساتھیوں کو نظر انداز فرما دیں گے یا ان کو اپنے پاس سے الگ کردیں گے، بلکہ یہ سردارانِ قریش کے غرور پر ضرب لگائی گئی ہے لیکن بات ان کو مخاطب کر کے کہنے کے بجائے پیغمبر کو مخاطب کر کے کہی گئی ہے تاکہ ان پر یہ واضح ہوجائے کہ ان کی یہ بات اس قابل بھی نہیں ہے کہ ان کو براہ راست مخاطب کر کے اس کا جواب دیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ جو بکواس کرتے ہیں کرنے دو۔ اگر یہ چیز ان کے لیے اسلام کی طرف بڑھنے میں رکاوٹ ہے تو وہ جس جہنم میں چاہیں گریں، تم پر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں، جو خدا کے طالب بن کر تمہارے پاس آئے ہیں تم ان کو اپنے پاس سے کس طرح دھتکار سکتے ہو ؟ تمہاری ذمہ داریاں تم پر ہیں۔ کل کو یہ تو تمہاری طرف سے ذمہ دار نہیں ہوں گے کہ تم ان کی خاطر ان لوگوں کے حقوق تلف کرو جو تمہاری توجہ اور شفقت کے اصلی حقدار ہیں۔ یہاں ‘ طرد ’ کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ اپنے معنی کے اعتبار سے سخت ضرور ہے اس لیے کہ اس کے معنی کسی کو دھتکارنے اور دور دفع کرنے کے ہیں لیکن یہ لفظ سردارانِ قریش کی ذہنیت کو سامنے رکھ کر استعمال ہوا ہے اس لیے کہ ان کی خواہش یہی تھی کہ محمد ﷺ ان لوگوں کو اپنے پاس سے دھتکار دیں تب ہم بات کرنے کے روادار ہوں گے۔ انبیاء کے کردار کا ایک خاص پہلو : حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے کردار کا یہ پہلو بھی یہاں نگاہ میں رہے کہ وہ اپنی قوم کے ایمان کے، جیسا کہ قرآن میں تصریح ہے، نہایت حریص ہوتے ہیں۔ سیدنا مسیح نے اس باب میں ایک تمثیل بھی بیان فرمائی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ کیا یہ بات نہیں ہے کہ جب تم میں سے کسی کوئی بھیڑ کھو جاتی ہے تو وہ اس کی تلاش میں ندیوں نالوں اور جنگلوں میں پریشان پھرتا ہے اور اپنے اصلی گلہ کو بھول جاتا ہے۔ پھر جب وہ مل جاتی ہے تو اس کو اپنے کندھے پر اٹھا کر لاتا ہے اور اپنے لوگوں میں آ کر کہتا ہے، اے لوگو، میرے ساتھ خوشی مناؤ، اس لیے کہ میری کھوئی ہوئی بھیڑ مجھے مل گئی۔ یہ تمثیل جس طرح اللہ تعالیٰ کی اس رافت کو ظاہر کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے ا بندوں کے لیے رکھتا ہے جو گمراہی کے بعد ہدایت کی طرف رجوع کرتے ہیں اسی طرح حضرات انبیا کی اس بیقراری کو بھی ظاہر کرتی ہے جو ان کے اندر اپنی قوم کے گمراہوں کے ایمان اور ان کی اصلاح کے لیے ہوتی ہے۔ حضرات انبیاء کی اس صفت میں اللہ تعالیٰ کی صفت کا ایک عکس ہے اس وجہ سے یہ ایک محبوب اور پسندیدہ صفت ہے۔ لیکن یہ صفت بھی اپنے کچھ حدود وقیود رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں پسند فرماتا کہ پیغمبر کھوئی بھیڑوں کی تلاش میں اتنا سرگرداں رہے کہ اپنے اصل گلے کی دیکھ بھال میں غفلت ہوجائے۔ جو سرکش اور آوارہ بھیڑ قابو میں نہیں آتی وہ کسی بھیڑئیے ہی کا حصہ ہے اسی طرح یہاں فرمایا کہ یہ مغرور لوگ اگر اپنی ناز برداری اس حد تک چاہتے ہیں کہ تم ان کی خاط ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دو جو صبح و شام رضائے الٰہی کی طلب میں سرگرم ہیں تو یہ کرنے کے تم مجاز نہیں ہو۔ ہمارے استاذ مولانا فراہی نے اس مضمون کو سورة عبس کی تفسیر میں بڑی وضاحت سے لکھا ہے اور اس کے بعض نہایت اہم پہلو ہم بھی مناسب مواقع پر ظاہر کریں گے۔
Top