Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 69
وَ مَا عَلَى الَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّ لٰكِنْ ذِكْرٰى لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
وَمَا : اور نہیں عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَّقُوْنَ : پرہیز کرتے ہیں مِنْ : سے حِسَابِهِمْ : ان کا حساب مِّنْ : کوئی شَيْءٍ : چیز وَّلٰكِنْ : اور لیکن ذِكْرٰي : نصیحت کرنا لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : ڈریں
جو اللہ سے ڈرتے ہیں ان پر ان لوگوں کے حساب کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، بس یاد دہانی کردینا ہے تاکہ وہ بھی ڈریں۔
یہ مسلمانوں کو تسلی اور تبلیغ دین کے معاملے میں اس نقطہ اعتدال اور طریقہ حکمت کو اختیار کرنے کی تلقین ہے جس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہوا، مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے اوپر ان کافروں اور ظالموں سے متعلق جو ذمہ داری ہے وہ صرف اللہ کی دعوت اور اس کے دین کو پہنچا دینے کی ہے تاکہ جس طرح وہ خدا سے ڈرنے والے ہیں اسی طرح یہ کفار بھی خدا سے ڈرنے والے بن جائیں۔ ان کے کفر و ایمان کی کوئی ذمہ داری مسلمانوں پر نہیں ہے۔ یہ اگر ایمان لائیں گے تو اس کا صلہ خود پائیں گے اور اگر کفر پر ارے رہیں گے تو قیامت کو اللہ کے حضور جواب دہ خود بنیں گے۔ مسلمانوں سے جب کہ انہوں نے خدا سے ڈرتے رہنے کا حق ادا کیا، کوئی مواخذہ ان سرکشوں کے باب میں نہیں ہوگا کہ یہ لوگ خدا سے ڈرنے والے کیوں نہ بنے ؟ خدا کے ہاں کوئی شخص کسی دوسرے کی ذمہ داریوں سے متعلق مسئول نہیں ہوگا۔ خدا سے ڈرنے والوں پر جو ذمہ داری دوسروں کے باب میں عائد ہوتی ہے وہ صرف تبلیغ و تذکیر کی ہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے یہ کافی ہے کہ اہل ایمان جب دیکھیں کہ کوئی سازگار موقع ان کے کانوں میں بھی بات ڈال دینے کا ہے تو ان کو اللہ کی بات پہنچا دیں۔ اپنے آپ کو ان کی ہدایت و ضلالت کا مسئول سمجھ کر ان کے تعاقب کی ضروت نہیں ہے۔ یہ مضمون سورة مائدہ کی آیت 105 یا ایہا الذین انوا علیکم انفسکم لایضرکم من ضل اذا اھتدیتم الایۃ کے تحت گزر چکا ہے۔ اس آیت سے کئی باتیں واضح ہوئیں جو ذہن میں رکھنے کی ہیں۔ ایک یہ کہ اوپر والی آیت میں خطاب اگرچہ بصیغہ واحد تھا لیکن کلام کا رخ مسلمانوں کی طرف تھا۔ چناچہ کلام کے تدریجی ارتقا سے یہ حقیقت خود واضح ہوگئی اور یہی قرآن کا معروف اسلوب ہے۔ دوسری یہ کہ اس سے اس جوش دعوت و تبلیغ کا اظہار ہو رہا ہے جو صحابہ ؓ کے اندر پایا جاتا تھا۔ آیت سے صاف مترشح ہو رہا ہے کہ صحابہ کو شہادت حق کی ذمہ داری کا اتنا شدید احساس تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر لوگوں نے ہدایت نہ قبول کی تو شاید آخر میں یہ ان کی کوتاہی خدمت میں محسوب ہو۔ تیسری یہ کہ اس سے دعوت و تبلیغ کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اس لیے کہ آیت سے صاف واضح ہے کہ اہل ایمان سے مواخذہ تو نہیں ہوگا کہ لوگوں نے ہدایت قبول کیوں نہیں لیکن یہ مواخذہ ان سے ہوگا کہ انہوں نے لوگوں کو تذکیر و تبلیغ کی یا نہیں۔
Top