Tadabbur-e-Quran - At-Taghaabun : 8
فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَا١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ : پس ایمان لاؤ اللہ پر وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول پر وَالنُّوْرِ : اور اس نور پر الَّذِيْٓ : وہ جو اَنْزَلْنَا : اتارا ہم نے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : ساتھ اس کے جو تم عمل کرتے ہو خَبِيْرٌ : خبر رکھنے والا
تو اللہ پر ایمان لائو اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے اور اللہ جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے باخبر ہے
(فامنواباللہ ورسولہ والنور الذی انزلنا واللہ بما تعملون خیبر) (8)۔ (دعوت ایمان جاندار تنبیہ)۔ یہ باندار تنبیہ دعوت ایمان ہے۔ یعنی اس قسم کے بہانے پیدا کر کے رسول کی تکذیب نہ کرو بلکہ اللہ اور اس کے رسول پر اور اس روشنی پر ایمان لائو جو اللہ نے نازل فرمائی ہے۔ روشنی سے مراد ظاہر ہے کہ قرآن مجید ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے لیے نازل فرمایا۔ یہ امر واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو روشنی ہل کتاب کو ہدایت و ضلالت میں امتیاز کے لیے عطاء فرمائی تھی وہ انہوں نے جیسا کہ پچھلی سورتوں میں تفصیل گزر چکی ہے، ضائع کردی تھی، جس کے سبب سے ان کے لیے حق و باطل میں امتیاز ناممکن ہوگیا تھا لیکن جب اس نے از سر نو خلق کی رہنمائی کے لیے اپنی روشنی، اپنی کامل صورت میں، اتاری تو اس کی قدر کرنے کے بجائے انہوں نے پورا زور لگایا کہ اس کو اپنے مونہوں کی پھونک سے بجھا دیں، نہ خود اس سے فائدہ اٹھائیں نہ دوسروں کو فائدہ اٹھانے کا موقع دیں۔ (یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللہ ِ بِاَفْوَاہِھِمْ وَ اللہ ُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ۔) (الصف : 61۔ 8) (یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں کی پھونک سے بجھا دیں اور اس کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کافروں کے علی الرغم وہ اپنے نور کو کامل کر کے رہے گا۔) (واللہ بما تعملون خبیر) یعنی اس مغالطے میں نہ رہو کہ اللہ تمہارے اعمال سے بیخبر ہے۔ جو کچھ تم کررہے ہو وہ سب اس کے علم میں ہے اور ایک دن وہ سب تمہارے سامنے آ کے رہے گا۔
Top