بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - Al-Qalam : 1
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ
نٓ : ن وَالْقَلَمِ : قسم ہے قلم کی وَمَا يَسْطُرُوْنَ : اور قسم ہے اس کی جو کچھ وہ لکھ رہے ہیں
یہ سورة ن ہے۔ قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جو وہ لکھتے ہیں
حرف ’نٓ‘ کے معنی: جس طرح ’قٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْدِ‘ (قٓ ۵۰: ۱) میں ’قٓ‘ سورہ کا نام ہے اسی طرح یہاں ’نٓ‘ اس سورہ کا نام ہے۔ عربیت کے معروف قاعدے کے مطابق مبتدا یہاں حذف ہو گیا ہے جس کو ہم نے ترجمہ میں کھول دیا ہے۔ سورۂ بقرہ کی تفسیر میں امام فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے اس نظریہ کا حوالہ ہم دے چکے ہیں کہ ابتداءً یہ حروف معانی پر دلیل ہوتے تھے، اب ان کے معانی کا علم اگرچہ باقی نہیں رہا تاہم بعض حروف اب بھی معنی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس دعوے کے ثبوت میں استاذ امامؒ نے جن حروف کا حوالہ دیا ہے ان میں یہ حرف بھی شامل ہے۔ جو اب بھی اپنے قدیم معنی (مچھلی) میں مستعمل ہے۔ اس سورہ کو اس نام سے موسوم کرنے میں اشارہ ہے حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ کی طرف جن کو مچھلی نے نگل لیا تھا، چنانچہ سورہ کے آخر میں ’صَاحِبُ الْحُوْتِ‘ (مچھلی والے) کے لقب سے آنجنابؑ کا ذکر آیا بھی ہے۔ سورۂ انبیاء کی آیت ۸۷ میں ’ذُوا النُّوْنِ‘ کے لقب سے بھی آپ کو ملقب فرمایا گیا ہے جس کے معنی بعینہٖ وہی ہیں جو ’صاحب الحوت‘ کے ہیں۔ قلم کی شہادت تین دعاوی پر: ’وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوۡنَ‘ یہ ’وَ‘ قسم کے لیے ہے اور یہ بات ہم بار بار ظاہر کر چکے ہیں کہ قرآن میں قسمیں کسی دعوے پر شہادت کے لیے کھائی گئی ہیں۔ یہاں دعوے کے طور پر، جیسا کہ آگے تفصیل آئے گی، تین باتیں مذکور ہیں جن کو ثابت کرنے کے لیے یہ قسم کھائی گئی ہے۔ ایک یہ کہ مخالفین آپ کو (پیغمبر صلعم) جو دیوانہ کہتے ہیں یہ ان کی خرد باختگی ہے۔ آپ دیوانے نہیں بلکہ اللہ کے فضل سے تمام فرزانوں سے بڑھ کر فرزانے ہیں۔ دوسری یہ کہ مخالفین جو یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ آپ کی یہ ساری سرگرمیاں چند روزہ ہیں جو بہت جلد ہوا میں اڑ جائیں گی، یہ بالکل غلط فہمی ہے۔ آپ کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں ایک غیر منقطع اجر مقدر ہے۔ تیسری یہ کہ آپ ایک اعلیٰ کردار کے مالک ہیں اس وجہ سے جو لوگ آپ کو شاعر، کاہن یا دیوانہ سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں وہ اپنی شامت کو دعوت دے رہے ہیں۔ ان دعاوی پر قرآن میں جگہ جگہ خود قرآن ہی کو شہادت میں پیش کیا گیا ہے اس وجہ سے قرینہ اسی بات کا ہے کہ یہاں بھی ’وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوۡن‘ سے قرآن ہی مراد ہو۔ چنانچہ مجاہدؒ سے روایت بھی ہے کہ ’القلم‘ سے مراد وہ قلم ہے جس سے قرآن مجید لکھا جا رہا تھا اور ’وَمَا یَسْطُرُوۡن‘ سے مراد قرآن مجید ہے۔ قلم کی اہمیت کے چند پہلو: یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ ’تعلیم بالقلم‘ اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات میں سے ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے: ’اقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ ۵ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۵ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ‘ (العلق ۹۶: ۳-۵) (پڑھو اور تمہارا رب نہایت ہی بافیض رب ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے تعلیم دی، انسان کو سکھایا وہ کچھ جو وہ نہیں جانتا تھا) سابق انبیاء علیہم السلام نے جو تعلیم دی وہ زبانی تعلیم کی شکل میں تھی جس کو محفوظ رکھنا نہایت مشکل تھا۔ وہ بہت جلد یا تو محرف ہو کر مسخ ہو جاتی یا اس پر نسیان کا پردہ پڑ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے دین کو اس آفت سے محفوظ رکھنے کے لیے انسان کو قلم اور تحریر کے استعمال کا طریقہ سکھایا جس سے وہ اس قابل ہوا کہ زبانی تعلیم کی جگہ اس کو تحریر کے ذریعہ سے تعلیم دی جائے۔ چنانچہ سب سے پہلے اس کو تورات کے احکام عشرہ الواح میں لکھ کر دیے گئے۔ پھر دوسرے نبیوں کی تعلیمات بھی قلم بند ہوئی اور سب کے آخر میں سب سے زیادہ اہتمام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اس طرح محفوظ کی گئی کہ قیامت تک اس میں کسی تحریف و تغیر کا کوئی ادنیٰ احتمال بھی باقی نہ رہا۔ قلم سے مراد: ’قلم‘ کی اسی اہمیت کے سبب سے یہاں اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم کھائی ہے۔ ہمارے نزدیک اس سے یہاں کوئی خاص قلم مراد نہیں ہے بلکہ یہ لفظ تعبیر ہے تعلیمات الٰہیہ کے اس پورے مدوّن سرمایہ (WRITTEN RECORD) کی جو قلم کے ذریعہ سے محفوظ ہوا۔ یعنی تورات، زبور، انجیل وغیرہ۔ ان مقدس صحیفوں کی تعلیمات بھی آنحضرت ﷺ کی تصدیق کرتی ہیں اور ان کے اندر آپ کے ظہور کی ناقابل تردید شہادتیں بھی ہیں۔ ان ساری چیزوں کی وضاحت ان کے محل میں ہو چکی ہے۔ ’وَمَا یَسْطُرُوۡن‘ کا مفہوم: ’وَمَا یَسْطُرُون‘ سے مراد، قرینہ دلیل ہے کہ، قرآن مجید ہے جو اس وقت نازل بھی ہو رہا تھا اور صحابہؓ کے ہاتھوں لکھا بھی جا رہا تھا۔ پچھلے صحیفوں کی قسم کے بعد یہ خود قرآن مجید کی قسم ہے۔ اس کو آنحضرت ﷺ کی صداقت، رزانت اور رسالت کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ جو شخص ایسا اعلیٰ اور برتر کلام پیش کر رہا ہے اس کا یہ کلام ہی دلیل ہے کہ یہ کوئی کاہن یا شاعر یا دیوانہ نہیں ہے بلکہ اللہ کا رسول ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ کفار کے اس قسم کے طعنوں کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے بالعموم قرآن مجید ہی کو ان کے سامنے پیش کیا ہے کہ وہ اس کو دیکھیں اور انصاف سے فیصلہ کریں کہ یہ کسی دیوانے یا کاہن یا شاعر کا کلام ہو سکتا ہے یا اللہ تعالیٰ کا؟
Top