Tadabbur-e-Quran - Al-Qalam : 47
اَمْ عِنْدَهُمُ الْغَیْبُ فَهُمْ یَكْتُبُوْنَ
اَمْ : یا عِنْدَهُمُ : ان کے پاس الْغَيْبُ : کوئی غیب ہے فَهُمْ يَكْتُبُوْنَ : تو وہ لکھ رہے ہیں
یا ان کے پاس غیب کا علم ہے پس وہ اس کو لکھ رہے ہیں
یہ بھی ان لوگوں کی اس بے پروائی اور بے نیازی پر اظہار تعجب ہے کہ آخر یہ کس بل بوتے پر اس انذار کو اس بے نیازی سے نظرانداز کر رہے ہیں! کیا ان کے پاس علم غیب ہے جو وہ لکھ رہے ہیں کہ آخرت میں (اگر وہ ہوئی) ان کے لیے نہایت اعلیٰ مدارج ہیں؟ مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی دلیل اور سند کے محض خواہشوں کی مدد سے اپنے لیے خیالی جنت آراستہ کر لینا اور زندگی کے حقائق سے آنکھیں موند لینا دانش مندی نہیں بلکہ اپنے لیے ابدی ہلاکت کا سامان کرنا ہے۔ یہ آیت سورۂ طور میں بھی گزر چکی ہے۔ وہاں اس کے سیاق و سباق کی روشنی میں ہم نے اس کی وضاحت کی ہے۔ سورۂ نجم میں یہ جس سیاق و سباق کے ساتھ آئی ہے اس سے اس کا پورا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ ارشاد ہے: أَعِندَہُ عِلْمُ الْغَیْْبِ فَہُوَ یَرَی ۵ أَمْ لَمْ یُنَبَّأْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوسَی ۵ وَإِبْرَاہِیْمَ الَّذِیْ وَفَّی ۵ أَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی(النجم ۵۳: ۳۵-۳۸) ’’کیا اس کے پاس علم غیب ہے پس وہ دیکھ رہا ہے (آخرت میں اپنے مدارج کو)؟ کیا موسیٰ کے صحیفوں میں جو بات بتائی گئی ہے اس کی خبر اس کو نہیں ملی؟ اور اس ابراہیم کی تعلیمات میں بھی جس نے اپنے رب کے ہر حکم کو پورا کیا؟ کہ کوئی جان بھی کسی بھی دوسری جان کا بوجھ اٹھانے والی نہیں بنے گی۔‘‘
Top