Tadabbur-e-Quran - Al-Haaqqa : 41
وَّ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَۙ
وَّمَا هُوَ : اور نہیں وہ بِقَوْلِ شَاعِرٍ : کسی شاعر کا قول قَلِيْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ : کتنا کم تم ایمان لاتے ہو
اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں، تم بہت ہی کم ایمان لاتے ہو !
یہ وہی اوپر والی بات منفی اسلوب سے فرمائی ہے کہ نہ یہ کسی شاعر کا کلام ہے اور نہ کسی کاہن کا۔ اگر تم لوگ ایمان لانے والے اور یاددہانی کی قدر کرنے والے ہوتے تو تم پر ازخود یہ حقیقت واضح ہو جاتی کہ یہ کسی شاعر یا کاہن کا کلام نہیں ہو سکتا۔ لیکن خرابی یہ ہے کہ تمہارے اندر ایمان کی خواہش اور بات کو سننے سمجھنے کی طلب ہی بہت کم پیدا ہوتی ہے اور جن کے اندر یہ طلب ہی نہ ہو وہ اسی طرح فرار کے بہانے تلاش کر لیتے ہیں۔ قرآن کو کسی شاعر یا کاہن کا کلام کیوں نہیں قرار دیا جا سکتا؟ اس کا مفصل جواب سورۂ شعراء میں دیا گیا ہے اور ہم نے اس کے تمام پہلوؤں کی وہاں وضاحت کی ہے۔ اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ مکذبین کے باطن کی تعبیر: ’قَلِیْلاً مَا تُؤْمِنُوۡنَ‘ اور ’قَلِیْلاً مَا تَذَکَّرُوۡنَ‘ میں دونوں فعل میرے نزدیک ارادۂ فعل کے معنی میں ہیں اور فعل کا ارادۂ فعل کے معنی میں آنا ایک معروف چیز ہے جس کی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ یہ ان کے اصل سبب اعراض پر روشنی ڈالی ہے کہ اگر تمہارے اندر ایمان لانے کا ارادہ پایا جاتا یا یاددہانی سے فائدہ اٹھانے کی خواہش ہوتی تب تو تم آسانی سے گہر اور پشیز میں امتیاز کر لیتے لیکن یہ ارادہ شاذ و نادر ہی تمہارے اندر پیدا ہوتا ہے۔ یہ بالکل ٹھیک ٹھیک ان مکذبین کے باطن کی تعبیر ہے۔ آخر قریش کے یہ لیڈر اتنے بدذوق اور غبی تو نہیں تھے کہ وہ اللہ کے کلام اور اپنے شاعروں اور کاہنوں کے کلام کے فرق کو نہ سمجھ سکیں۔ وہ اس فرق کو سمجھتے تھے اور گاہ گاہ ان کے اندر سچائی کے اعتراف کا جذبہ بھی ابھرتا رہا ہو گا لیکن نفس کی خواہشوں کے بوجھ تلے یہ جذبہ اس طرح دبا ہوا تھا کہ اول اول تو یہ ابھرتا ہی بہت کم تھا اور اگر کبھی ابھرتا بھی تو اتنا ضعیف ہوتا کہ وہ زندگی میں کوئی مؤثر تبدیلی نہ لا سکتا۔ بس کوئی ایسا ہی خوش قسمت ہوتا تو وہ اپنے نفس کے حجابات سے نکلنے میں کامیاب ہوتا۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ حال قریش کے لیڈروں کا بیان ہو رہا ہے ان کے عوام کا حال نہیں بیان ہو رہا ہے۔ ان کی قیادت کے کردار کی تصویر پچھلی سورہ میں بھی سامنے آ چکی ہے۔
Top