Tadabbur-e-Quran - Al-Haaqqa : 47
فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِزِیْنَ
فَمَا مِنْكُمْ : تو نہ ہوتا تم میں سے مِّنْ اَحَدٍ : کوئی ایک عَنْهُ : اس سے حٰجِزِيْنَ : روکنے والا۔ باز رکھنے والا ہوتا
پس تم میں سے کوئی بھی اس سے ہم کو روکنے والا نہ بن سکتا۔
’فَمَا مِنۡکُمۡ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنَ‘۔ یہ قریش سے خطاب ہے کہ قرآن میں اپنے حسب منشا ترمیم کا مطالبہ تو کر رہے ہو لیکن خدا کی گرفت سے اس کو تم میں سے بچانے والا کون بنے گا! لفظ ’اَحَد‘ چونکہ جمع کے مفہوم میں آتا ہے جیسے ’لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ‘ (الاحزاب ۳۳: ۳۲) میں ہے۔ اس وجہ سے ’حَاجِزِیْنَ‘ کا جمع آنا عربیت کے بالکل مطابق ہے۔ رسولوں کی حفاظت ان کی ذمہ داری کے اعتبار سے ہوتی ہے: یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اس طرح کی کڑی نگرانی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی کرتا ہے جن کو وہ منصب رسالت پر مامور فرماتا ہے اس لیے کہ ان کی تحویل میں وحی کا خزانہ ہوتا ہے جس کی حفاظت ضروری ہے۔ اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ جو شخص بھی خدا پر جھوٹ بولے اس کی گردن توڑ دی جائے۔ جھوٹ بولنا تو درکنار کتنے ہیں جو خدا کو گالی دیتے ہیں لیکن اس دنیا میں ان کو بھی مہلت ملی ہوئی ہے۔ وہ اپنا انجام آخرت میں بھگتیں گے۔ البتہ خدا کا کوئی سچا رسول نہ خدا پر کوئی افترا کر سکتا اور نہ کسی کے دباؤ سے اس کے پیغام میں کوئی کمی بیشی کر سکتا۔ رسولوں کو جو عصمت حاصل ہوتی ہے اس کی حکمت بھی یہی ہے کہ ان کی امانت میں خدا کی شریعت ہوتی ہے۔ ان کی معمولی بھول چوک اور غلطی پوری خلق کے لیے موجب فتنہ بن سکتی ہے اس وجہ سے ان سے کوئی معمولی فروگزاشت بھی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو فوراً درست فرما دیتا ہے۔ دوسروں کو یہ حفاظت حاصل نہیں ہوتی کیونکہ وہ اس ذمہ داری پر مامور نہیں ہوتے جس پر حضرات انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں۔
Top