Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 10
وَ لَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور بیشک مَكَّنّٰكُمْ : ہم نے تمہیں ٹھکانہ دیا فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَجَعَلْنَا : اور ہم نے بنائے لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْهَا : اس میں مَعَايِشَ : زندگی کے سامان قَلِيْلًا : بہت کم مَّا تَشْكُرُوْنَ : جو تم شکر کرتے ہو
اور ہم نے تمہیں اس ملک میں اقتدار بخشا اور تمہارے لیے معاش کی راہیں کھولیں، پر تم بہت ہی کم شکر گزار ہوتے ہو
وَلَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِي الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْهَا مَعَايِشَ ۭقَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ارض سے مراد سرزمین حرم ہے۔ ‘ تمکین فی الارض ’ سے مراد زمین میں اختیار و اقتدار بخشنا ہے۔ مثلاً وکذلک منکنا لیوسف فی الارض (اور اس طرح ہم نے یوسف کو ملک مصر میں اختیار و اقتدار بخشا)۔ ارض اگرچہ لفظاً عام ہے لیکن خطاب چونکہ قریش سے ہے اس وجہ سے اس سے مراد یہاں سرزمین حرم ہے جس میں قریش کو اختیار و اقتدار حاصل تھا۔ معایش سے اشارہ ان معاشی سہولتوں اور برکتوں کی طرف ہے جو ایک وادی غیر ذی زرع میں حضرت ابراہیم کی دعا اور بیت اللہ کی برکت سے اہل عرب کو عموماً اور قریش کو خصوصاً حاصل ہوئیں۔ قرا ان میں ان برکتوں اور نعمتوں کا جگہ جگہ ذکر ہوا ہے۔ اور ہم تفصیل کے ساتھ بقرہ میں ان کا حوالہ دے چکے ہیں۔ سورة قصص میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے اولم نمکن لہم حرما امنا یجبی الیہ ثمرات کل شیء (قصص :57) (کیا ہم نے ان کو ایک پر امن حرم میں اقتدار نہیں بخشا جس کی طرف ہر چیز کے پھل کھنچے چلے آتے ہیں)۔ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ، یہ وہ اصلی بات ارشاد ہوئی ہے جس کے کہنے ہی کے لیے اوپر والی باتیں بطور تمہید بیان ہوئیں۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم و اسمعیل کی دعاؤں اور بیت اللہ کے طفیل تمہیں اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں اختیار و اقتدار کی نعمت بھی بخشی اور معاش و معیشت کی نہایت فراخ راہیں بھی کھولیں لیکن تم سخت ناشکرے نکلے کہ تم نے اپنے پروردگار کے بجائے شیطان کی، جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے، پیروی کی اور اس نے جن جن فتنوں میں تم کو مبتلا کرنا چاہا ہے تم ان سب میں مبتلا ہوگئے۔
Top