Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں پیدا کیا ثُمَّ : پھر صَوَّرْنٰكُمْ : ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی ثُمَّ قُلْنَا : پھر ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس لَمْ يَكُنْ : وہ نہ تھا مِّنَ : سے السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے ؁
اور ہم نے تمہارا خاکہ بنایا، پھر تمہاری صورت گری کی، پھر فرشتوں کو فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو، سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے
آدم و ابلیس کا ماجرا اور اس کے مضمرات : اب یہ آدم اور ابلیس کا وہ ماجرا سنایا جا رہا ہے جس سے آدم اور ان کی ذریت کے ساتھ ابلیس اور اس کے ساتھیوں کی دشمنی کی تاریخ بھی سامنے آتی ہے، اس کا اصل سبب بھی واضح ہوتا ہے اور قیامت تک کے لیے اس کو باقی رکھنے اور اولادِ آدم سے انتقام لینے کا شیطان نے جو عہد کر رکھا ہے، اس کا بھی اظہار ہونا ہے، اس قصے کو پڑھتے ہوئے وہ مقصد نگاہ سے اوجھل نہ ہو جس کے لیے یہ سنایا گیا ہے۔ شیطان کو آدم اور ان کی ذریعت سے دشمنی اس حسد کی بنا پر ہے جو آدم کی تکریم کے حکم سے اس کو لاحق ہوا اس حکم کی تعمیل سے اس نے نہایت تکبر کے ساتھ انکار کیا جس کے نتیجہ میں وہ نہایت ذلت کے ساتھ جنت سے نکالا گیا، بالآخر اس نے اس غصہ میں اللہ تعالیٰ سے یہ درخوات کی کہ اسے اٹھائے جانے کے دن تک کے لیے یہ مہلت دی جائے کہ وہ آدم اور اولادِ آدم پر اپنے چرتر آزمائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ درخواست منظور کرلی۔ یہ درخواست منظور ہوجانے کے بعد شیطان نے اللہ تعالیٰ کو چیلنج کیا کہ میں ان کو توحید کی راہ سے برگشتہ کرنے لیے اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر ڈالوں گا اور ان کو اپنی تدبیروں، چالوں اور اپنے پروپیگنڈوں سے اس طرح بدحواس کردوں گا کہ ان کی اکثریت تیری توحید کی راہ سے ہٹ جائے گی اور یہ ثابت ہوجائے گا کہ یہ، جس کو تو نے میرے اوپر فضیت بخشی، ہرگز کسی فضیلت کا سزاوار نہیں ہے۔ اس کے بین السطور پر غور کیجیے تو چند باتیں بالکل واضح طور پر سامنے آئیں گی۔ ایک یہ کہ شیطان کو اصلی کد انسان سے یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اس پر ترجیح کیوں دی ؟ اس نے اسی ترجیح کو غلط ثابت کرنے کے لیے خدا سے مہلت مانگی ہے۔ اب یہ انسان کی کیسی بدبختی ہے کہ وہ اس معرکے میں جو خود اسی کے خلاف شیطان نے برپا کیا ہے، شیطان کا دست وبازو بن جائے اور خود اپنے عمل سے شیطان کے حق میں گواہ بن کر یہ ثابت کرادے کہ خدا نے اس کو جس عزت کا اہل سمجھا در حقیقت وہ اس کا اہل نہیں تھا بلکہ اس کے باب میں شیطان ہی کا گمان صحیح تھا۔ دوسری یہ کہ انسان اس دنیا میں ایک کارزار امتحان میں ہے جہاں شیطان سے ہر قدم پر اس کا مقابلہ ہے، شیطان اپنے سارے داؤں، سارے فریب، سارے چرتر انسان پر استعمال کرنے کے لیے خدا سے مہلت لے چکا ہے۔ خدا نے اس کو، جہاں تک ورغلانے کا تعلق ہے، مہلت دے دی ہے اور یہ مہلت اس کو قیامت کے دن تک کے لیے حاصل ہے۔ قیامت کے دن یہ فیصلہ ہوگا کہ کون جیتا اور کون ہارا ؟ تیسری یہ کہ شیطان کی اس ساری سعی اغوا واضلال میں اصل ہدف عقیدہ توحید ہے۔ یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر گھات لگانے اور شبخون مارنے کا اس نے الٹی میٹم دیا ہے کہ میں اس راہ سے انسان کو ہٹا کر چھوروں گا اور انسانوں کی اکثریت اس سے میں حرف ہو کر خدا کی ناشکری کرنے والی بن جائے گی۔ اوپر قریش کو قلیلا ما تشکرون کے الفاط سے اسی امر واقعی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ شیطان نے انسان کے بارے میں جو گمان ظاہر کیا تھا تم نے اس کو اپنی نالائق سے حرف حرف سچ ثابت کر دکھایا ہے۔ اس وجہ سے تم خود اسی انجامِ بد کے مستوجب بن چکے ہو جس کی خبر شیطان کے الٹی میٹم کے جواب میں خدا نے سنا دی تھی کہ میں تجھ کو اور تیری پیروی کرنے والوں کو جہنم میں بھر دوں گا۔ نظم کلام کے واضح ہوجانے کے بعد الفاط اور اجزائے کلام کی وضاحت کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہی۔ ان میں سے اکثر چیزیں سورة بقرہ کی تفسیر میں پوری وضاحت سے زیر بحث آچکی ہیں۔ ان کے دہرانے میں طوالت ہوگی۔ البتہ جو چیزیں وہاں زیر بحث نہیں آئی ہیں ان کی وضاحت ہم کیے دیتے ہیں۔ وَلَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ الایہ، لفظ خلق کا مفہوم : خلق کا صحیح لغوی مفہوم، ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں، کسی چیز کا خاکہ (DESIGN) بنانا ہے۔ یہ لفظ قرآن میں تنہا بھی استعمال ہوا ہے اور بعض جگہ اپنے دوسرے لوازم و متعلقات مثلا برء، تسویہ، ترکیب، اور تصویر کے ساتھ بھی استعمال ہوا ہے۔ جہاں یہ تنہا استعمال ہوا ہے ہاں یہ اپنے تمام لوازم و متعلقات پر مشتمل ہے۔ لیکن جہاں اپنے دوسرے متعلقات کے ساتھ آیا ہے جیسے یہاں خَلَقْنٰكُمْ کے بعد صَوَّرْنٰكُمْ بھی ہے تو ایسے مواقع میں یہ اپنے اصل لغوی مفہوم ہی میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں خلق اور تصویر کے دو لفظوں نے تخلیق کی ابتدائی اور انتہائی دونوں حدیں واضح کردیں۔ ہر مخلوق کا مرحلہ ابتدائی تو یہ ہے کہ اس کا خاکہ بنا اور اس کا آخری و تکیلی مرحلہ یہ ہے کہ اس کی صورت گری ہوئی اور اس کے ناک نقشے اور نوک پلک درست ہوئے۔ یہاں مخاطب، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، قریش ہیں، اور بیان ان کے سامنے نوع انسانی کی تخلیق اور ان آزمائشوں ا ہو رہا ہے جو انسان کے لیے مقدر کی گئی ہیں۔ حضرت آدم تمام نسل انسانی کے باپ ہیں اس وجہ سے ان کی سرگزشت تنہا انہی کی سرگزشت نہیں ہے بلکہ پوری نسل انسانی کی سرگزشت ہے۔ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ڰ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ۔ سجدہ کے مفہوم، اس حکم کی مصلحت، جنات کے اس حکم میں شامل ہونے کی وجہ اور اس ذیل کے دوسرے اہم مسائل پر ہم بقرہ کی تفسیر میں گفتگو کرچکے ہیں۔ وہاں ہم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ابلیس، اس جن کا لقب ہے جس نے باوا آدم کو دھوکا دیا۔ یہ جنات میں سے تھا اور خدا کی نافرمانی کر کے سرکش بن گیا۔ جنوں اور انسانوں میں سے جو لوگ اس کے پیرو بن جاتے ہیں وہ سب اس کی معنوی ذریت ہیں۔ ایسے ہی جنوں اور انسانوں کے لیے قرآن میں شیطان کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ شیطان، جیسا کہ بقرہ کی تفسیر میں ہم نے واضح یا، کوئی مستقل بالذات مخلوق نہیں ہے۔
Top