Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 172
وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذَ : لیا (نکالی) رَبُّكَ : تمہارا رب مِنْ : سے (کی) بَنِيْٓ اٰدَمَ : بنی آدم مِنْ : سے ظُهُوْرِهِمْ : ان کی پشت ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد وَاَشْهَدَهُمْ : اور گواہ بنایا ان کو عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں اَلَسْتُ : کیا نہیں ہوں میں بِرَبِّكُمْ : تمہارا رب قَالُوْا : وہ بولے بَلٰي : ہاں، کیوں نہیں شَهِدْنَا : ہم گواہ ہیں اَنْ : کہ (کبھی) تَقُوْلُوْا : تم کہو يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن اِنَّا : بیشک ہم كُنَّا : تھے عَنْ : سے هٰذَا : اس غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
اور یاد کرو، جب نکالا تمہارے رب نے بنی آدم سے، ان کی پیٹھوں سے، ان کی ذریت کو اور ان کو گواہ ٹھہرایا خود ان کے اوپر، پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہو ؟ بولے ہاں تو ہمارا رب ہے۔ ہم اس کے گواہ ہیں۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ مبادا قیامت کو تم عذر کرو کہ ہم تو اس سے بیخبر ہی رہے۔
آیات 172 تا 206 کا مضمون : آگے کا مضمون خاتمہ سورة کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم تمہید میں عرض کرچکے ہیں کہ اس سورة میں مخاطب اصلاً قریش ہیں۔ ان کو پہلے خود ان کے اپنے ملک کی ان قوموں کے حالات سنائے گئے جو ماضی میں گزر چکی تھیں پھر بنی اسرائیل کی بھی پوری تاریخ تفصیل سے سنا دی گئی جو سامنے موجود تھے۔ مقصود ان قوموں کی تاریخ سنانے سے، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، یہ ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک اپنی اس دنیا کے احوال و معاملات سے بےتعلق اور کنارہ کش نہیں ہے۔ وہ خلق کی اصلاح و ہدایت کے لیے ہیشہ اپنے رسول بھیجتا رہا ہے اور وہ رسول جب بھی آئے ہیں عزل و نصب کی میزان بن کر آئے ہیں۔ جن قوموں نے ان کی تکذیب کی خدا نے ان کو مٹا دیا اور جن لوگوں نے ان کی تصدیق وہ برومند ہوئے۔ یہی فیصلہ کن مرحلہ اب قریش کے سامنے ہے۔ آیت 171 پر تاریخی سرگزشتوں کا یہ سلسلہ ختم ہوا۔ اب آگے قریش کو مخاطب کر کے پہلے ان کو اس عہد فطرت کا یاد دہانی کی ہے جو تمام بنی آدم سے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید و ربوبیت کا لیا ہے اور اس کو بنیاد قرار دے کر ان پر حجت قائم کی ہے کہ کل کو خدا کے حضور میں تم یہ عذر نہیں کرسکتے کہ تم اس چیز سے بیخبر تھے۔ اس کے لیے خدا نے تم سے عہد بھی لیا ہے اور اب اس کی یاد دہانی کے لیے اپنا رسول بھی تمہارے پاس بھیج دیا ہے۔ یہ واضح رہے کہ اہل عرب کتاب و شریعت سے نا آشنا امی تھے اس وجہ سے ان سے بحث کی بنیاد یا تو ان کی جانی پہچانی ہوئی تاریخ پر قائم ہوسکتی تھی یا پھر فطرت اور عقل کی بدیہیات پر۔ چناچہ پہلے ان کے سامنے تاریخ کے واقعات صحیح زاویے سے پیش کیے، پھر عہد فطرت کی اساس پر آگے گفتگو بڑھائی۔ عہد فطرت کی یاد دہانی کے بعد ان کے سامنے بنی اسرائیل کی تثیل پیش کی ہے کہ تم اس قوم کی طرح خدا کی نعمت کے ناقدرے اور ناشکرے نہ بنو۔ اللہ نے اس قوم پر بڑا احسان کیا لیکن یہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، نہایت ہیز قوم نکلی۔ اللہ نے اس کو ہمیشہ بلند کرنا چاہا لیکن یہ برابر پستی ہی کی طرف جھکی رہی۔ جس طرح کتے کو پیار کرو تو زبان نکالے رہتا ہے، جھڑکو تو زبان نکالے رہتا ہے اسی طرح ان کے لیے تنبیہ اور احسان دونوں یکساں ہیں۔ اس کے بعد آنکھ کان اور دل دماغ کی نعمتوں کی قدر کرنے اور ان سے صحیح کام لینے کی دعوت دی کہ دین کے معاملے میں لکیر کے فقیر بن کر نہ چلو کہ جن کو باپ دادا پوجتے آئے بےسمجے بوجھے ت بھی انہی کو پوجتے رہو، یاد رکھو کہ جو لوگ اپنے دل و دماغ کی صلاحیتوں اور اپنے سمع و بصر کی قوتوں سے کام نہ لیں گے اور تذکری و تنبیہ کے باوجود ٹھوکریں کھاتے پھریں گے اللہ ان سب کو جہنم میں جھونک دے گا۔ اس کے بعد پیغمبر کی طرف توجہ دلائی کہ جو شخص آج تمہیں آنے والے عظیم خطرے سے آگاہ کر رہا ہے یہ کوئی دیوانہ یا خبطی نہیں ہے۔ نظامِ کائنات پر گور کروگے تو خود تمہاری عقل گواہی دے گی کہ یہ دنیا کوئی کھیل تماشا نہیں ہے۔ اس کے پیچھے عظیم حکمت وغایت ہے اس وجہ سے کچھ عجب نہیں تمہارے اس فیصلہ کا وقت قریب آ لگا ہو جس سے یہ پیغمبر تمہیں ہوشیار کر رہا ہے۔ اس امر سے اس حقیقت کے ایک اٹل حقیقت ہونے میں کوئی فرق نہیں پیدا ہوتا کہ پیغمبر تمہیں اس کا معین وقت نہیں بتا سکتا۔ پیغمبر کوئی غیب دان نہیں ہوتا، وہ صرف ایک بشیر و نذیر ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسان کی بد قسمتی پر اظہارِ افسوس ہے کہ وہ نعمتیں تو سب خدا سے پاتا ہے لیکن گن دوسروں کے گاتا ہے اور ایسی چیزوں کو خدا کا شریک بناتا ہے جو نہ تو اس کو نفع ہپنچا سکتی ہیں نہ کوئی ضرر۔ آخر میں پیغمبر ﷺ کو مخالفوں کی بےہودہ بکواسوں اور ان کے لا یعنی اعتراضا پر صبر و استقامت کی تلقین فرمائی اور اس صبر کے حصول کے لیے جو چیز واسطہ اور وسیلہ ہے اس کی طرف رہنمائی فرمائی۔ اب اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمائیے۔ وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۭ قَالُوْا بَلٰي ڔ شَهِدْنَا ڔ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ ، ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ اذ کے ذریعہ سے کسی ایسے امر واقعی کی یاددہانی بھی کی جاتی ہے جو متکلم کے نزدیک ایک حقیقت ہو، قطع نظر اس سے کہ مخاطب اس کو فراموش کیے ہوئے ہوں یا اس سے منحرف ہوں۔ اسی طرح واحد کے خطاب کے متعلق بھی واضح کرچکے ہیں کہ قرینہ دلیل تو یہ جمع کے مفہوم میں بھی ہوتا ہے اور اس صورت میں گویا مخاطب گروہ کا ایک ایک شخص فردا فردا مخاطب ہوتا ہے مِنْ ظُهُوْرِهِمْ کی قید کا فئدہ : مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ، من ظھورھم، من بنی آدم سے بدل واقع ہے اور اس بدل کے لانے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ بنی آدم سے متعلق یہاں جو حقیقت بیان ہو رہی ہے وہ کسی خاص دور ہے کے بنی آدم سے متعلق نہیں ہے۔ بلکہ قیامت قیامت تک جتنے بھی بنی آدم پیدا ہونے والے ہیں سب ہی سے متعلق ہے۔ تمام بنی آدم سے خدا نے اپنے رب ہونے اقرار لیا۔ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۭ قَالُوْا بَلٰي شَهِدْنَا، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام بنی آدم سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا ہے اور وہ اس طرح کہ اس نے ان سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں، اس کے جواب میں سب نے یہ اقرار لیا ہے کہ ہاں بیشک تو ہمارا رب ہے اور ہم اس کے گواہ ہیں، یہ ملحوظ رہے کہ الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ یہ اقرار اللہ تعالیٰ نے صرف اس بات کا نہیں لیا کہ وہ اللہ ہے بلکہ اسبات کا لیا کہ وہی رب بھی ہے۔ یہ ملحوظ رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اہل عرب کو اللہ کے اللہ ہونے سے انکار نہیں تھا لیکن رب انہوں نے اللہ کے سوا اور بھی بنا لیے تھے حالانکہ عہد فطرت میں اقرار صرف اللہ ہی کی ربوبیت کا ہے اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ۔ ان سے پہلے کراھۃ یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہے اس وجہ سے اس کا ترجمہ یہ ہوگا کہ مبادا تم قیامت کے دن عذر کرو، اس سے یہ بات نکلتی ہے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جہاں تک توحید اور بدیہیاتِ فطرت کا تعلق ہے ان کے باب میں قیامت کے دن مواخذہ ہر شخص سے مرد اس اقرار کی بنا ہوگا جو مذکور ہوا، قطع نظر اس سے کہ اس کو کسی نبی کی دعوت پہنچی یا نہیں۔ اگر کسی نبی کی دعوت اس کو پہنچی ہے تو یہ گویا ایک مزید حجت اس پر قائم ہوگئی کہ اس کی مسئولیت دو چند ہوگئی لیکن نبی کی دعوت اگر نہیں پہنچی تو یہ بدیہیات فطرت کے معاملے میں کوئی عذر نہیں بن سکے گی۔ ان پر مواخذہ کے لیے فطرت کا یہ عہد کافی ہے۔
Top