Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 190
فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِیْمَاۤ اٰتٰىهُمَا١ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّآ : پھر جب اٰتٰىهُمَا : اس نے دیا انہیں صَالِحًا : صالح بچہ جَعَلَا : ان دونوں نے ٹھہرائے لَهٗ : اس کے شُرَكَآءَ : شریک فِيْمَآ : اس میں جو اٰتٰىهُمَا : انہیں دیا فَتَعٰلَى : سو برتر اللّٰهُ : اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
تو جب اللہ ان کو تندرست اولاد دے دیتا ہے تو اس کی بخشی ہوئی چیز میں وہ اس کے لیے دوسرے شریک ٹھہراتے ہیں۔ اللہ برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک ٹھہراتے ہیں
قرآن میں انسانی فطرت کا یہ خاص پہلو جگہ جگہ بیان ہوا ہے کہ انسان انی اصل ضرورت اور اصل احیتاج کے وقت تو اپنے رب ہی کی طرف متوجہ ہوتا ہے لیکن جب وہ احتیاج پوری ہوجاتی ہے تو اس کو دوسرے اسباب و وسائل کا کرشمہ قرار دینے لگتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کا تجربہ ہر شخص خود اپنے اندر کرسکتا ہے۔ انسان کی عام حالت یہی ہے اور یہاں عام حالت ہی بیان ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ ایسے بلید بھی پائے جاتے ہوں جو کسی حال میں بھی خدا کی طرف متوجہ نہ ہوتے ہوں لیکن فرعون تک کا حال قرآن میں بیان ہوا ہے کہ ڈوبتے وقت اسے بھی خدا یاد آیا۔ بہرحال مستثنیات سے یہ کلیہ ٹوٹ نہیں جاتا۔ آدی پر جب حقیق افتقار کی حالت طاری ہوتی ہے تو وہ دل دل میں یا زبان اور دل دونوں ہی سے خدا کو پکارتا ہے اور یہ عہد بھی کرتا ہے کہ اگر اس مرحلہ یا اس بھنور سے وہ گزر گیا تو آئندہ وہ اپنے رب کا شکر گزار بندہ بن کر زندگی گزارے گا لیکن جونہی اس مرحلہ سے گزر جاتا ہے، وہ یہ سارا عہد و پیمان بھلا کر انہی خود فراموشیوں میں پھر گم ہوجاتا ہے جن میں پہلے کھویا ہوا تھا۔ اس مسئلہ پر ہم نے اپنی کتابوں میں سے حقیقت شرک، اور حقیقت توحید میں بھی بحث کی ہے۔ تفصیل کے طالب ان کو پڑھیں۔ نظم کے پہلو سے یہ آیات اس مضمون سے تعلق رکھتی ہیں جو اوپر 172، 174 میں عہد فطرت کا بیان ہوا ہے۔ بیچ میں کچھ آیتیں تنبیہ و تذکریر اور انذار کی نوعیت کی آگئی ہیں۔ اب یہ پھر اس مضمون کو لے لیا ہے اور یہ دکھا ہے کہ انسان کی فطرت کی اصل صدا کیا ہے اور انسان (یہاں خاص اشارہ قریش کی طرف سے) اپنی فطرت کی اس صدا سے کان بند کر کے کس طرح مختلف وادیوں میں ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۔ میں ہم اوپر واضح کرچکے ہیں کہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ خدا کی صفات کے ساتھ ایسی صفات کا جوڑ ملانا جو اس کی بنیادی صفات کو باطل کردیں بالکل خلاف عقل ہے۔ شرک، جس نوعیت کا بھی ہو، تمام صفات کمال کی نفی کردیتا ہے اس وجہ سے خدا ایسی تمام نسبتوں اور شرکتوں سے منزہ اور ارفع ہے۔
Top