Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 40
اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو وَاسْتَكْبَرُوْا : اور تکبر کیا انہوں نے عَنْهَا : ان سے لَا تُفَتَّحُ : نہ کھولے جائیں گے لَهُمْ : ان کے لیے اَبْوَابُ : دروازے السَّمَآءِ : آسمان وَ : اور لَا يَدْخُلُوْنَ : نہ داخل ہوں گے الْجَنَّةَ : جنت حَتّٰي : یہانتک (جب تک) يَلِجَ : داخل ہوجائے الْجَمَلُ : اونٹ فِيْ : میں سَمِّ : ناکا الْخِيَاطِ : سوئی وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیتے ہیں الْمُجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
بیشک جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور تکبّر کر کے ان سے منہ موڑا ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ جنت میں نہیں داخل ہوں گے جب اونٹ سوئی کے ناکے میں نہ سما جائے اور ہم مجرموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں
اِنَّ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاۗءِ وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِيْنَ۔ لفظ استکابر کے ساتھ ‘ عن ’ کے صلہ کا فائدہ ہم اوپر واضح کرچکے ہیں۔ لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَاۗءِ کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کے لیے سماء جنت کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، دوسرا یہ کہ اہل ایمان کی طرح آسمان میں ان کا خیر مقدم نہیں ہوگا بلکہ وہ نہایت ذلت و فضیحت کے ساتھ اپنا انجام بد دیکھنے کے لیے مجرموں اور بدمعاشوں کی طرح ہنکاتے ہوئے لے جائے جائیں گے۔ قاعدہ ہے کہ جن کا اعزاز واکرم مقصود ہوتا ہے ان کے لیے نہایت اہتمام سے پھاٹک کھولے جاتے ہیں، پھاٹک پر ان کے خیر مقدم کے لیے ان کے خیر مقدم کرنے والے دو رویہ کھڑے ہوتے ہیں، وہ اہلاً و سہلاً ، احسنت، اور مرحبا، سلام اور تحیت کے نعروں سے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ برعکس اس کے حسن کی تذلیل مد نطر ہوتی ہے وہ قیدیوں کی طرح جیل کے پھاٹک کی کھڑکی سے اس کے اندر ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ گویا لا تفتح سے مقصود نفس فعل کی نفی نہیں بلکہ اس کے لازم کی نفی ہے جس کی مثالیں کلام عرب میں بہت ملتی ہیں۔ لَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰي يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ۔ یہ اس قسم کا اسلوب بیان ہے جس کو تعلیق بالمحال کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونا محال ہے۔ اسی طرح ان مسکبرین کا جنت میں داخل ہونا محال ہے۔ تعبیر کا یہ اسلوب قدیم صھیفوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔ انجیل میں ہے اور یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دولت مند کا آسمان کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولتمند خدا کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل ہے اور پھر تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے سے نکل جانا اس سے آسان ہے کہ دولتمند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو (متی۔ 19 : 23، 24)۔ قرآن اور انجیل کی تعبیر میں بس یہ فرق ہے کہ سیدنا مسیح نے سبب استکبار یعنی دولت کا حوالہ دیا ہے اور قرآن نے اصل جرم یعنی استکبار کا۔ اوپر ہم آدم و ابلیس کے قصے میں استکبار کی حقیقت بھی واضح کرچکے ہیں اور یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ ابلیس کے جنت سے نکالے جانے کا اصل سبب استکبار ہوا اس وجہ سے جن کے اندر استکبار کا کوئی شائبہ ہوگا وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھیں گے۔ سیدنا مسیح کا ارشاد ہے، مباریک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں، آسمان کی بادشاہی میں وہی داخل ہوں گے۔
Top