Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 43
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ١ۚ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ هَدٰىنَا لِهٰذَا١۫ وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ١ۚ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ١ؕ وَ نُوْدُوْۤا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَنَزَعْنَا : اور کھینچ لیے ہم نے مَا : جو فِيْ : میں صُدُوْرِهِمْ : ان کے سینے مِّنْ غِلٍّ : کینے تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ : سے تَحْتِهِمُ : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں وَقَالُوا : اور وہ کہیں گے الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : جس نے هَدٰىنَا : ہماری رہنمائی کی لِھٰذَا : اس کی طرف وَمَا : اور نہ كُنَّا : ہم تھے لِنَهْتَدِيَ : کہ ہم ہدایت پاتے لَوْ : اگر لَآ : نہ اَنْ هَدٰىنَا : کہ ہمیں ہدایت دیتا اللّٰهُ : اللہ لَقَدْ : البتہ جَآءَتْ : آئے رُسُلُ : رسول رَبِّنَا : ہمارا رب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَنُوْدُوْٓا : اور انہیں ندا دی گئی اَنْ : کہ تِلْكُمُ : یہ کہ تم الْجَنَّةُ : جنت اُوْرِثْتُمُوْهَا : تم اس کے وارث ہوگے بِمَا : صلہ میں كُنْتُمْ : تم تھے تَعْمَلُوْنَ : کرتے تھے
اور ان کے سینے کی ہر خلش ہم کھینچ لیں گے۔ ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ اور وہ کہیں گے شکر کا سزا وار ہے وہ اللہ جس نے اس چیز کی ہدایت بخشی، اگر اللہ نے ہمیں ہدایت بخشی، اگر اللہ نے ہمیں ہدایت نہ بخشی ہوتی تو ہم تو ہدایت پانے والے نہ بنتے۔ ہمارے رب کے رسول بالکل سچی بات لے کر آئے۔ اور ان کو پیغام دیا جائے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کے تم اپنے اعمال کے صلے میں وارث ٹھہرائے گئے ہو
وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْھٰرُ ۚ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا لِھٰذَا ۣ وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَآ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ۚ لَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۭ وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ زبان کا ایک خاص اسلوب : وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ ، اس ٹکڑے میں زبان کا وہ اسلوب ملحوط ہے جس کی ایک سے زیادہ مقامات میں ہم وضاحت کرچکے ہیں کہ بسا اوقات ایک لفظ استعمال ہوتا ہے اور مقصود اس سے اس کا لازم ہوتا ہے۔ مثلاً ارشاد ہوا ہے فالیوم ننسہم کما نسوا لقاء یومہم ھذا (پس آج ہم ان کو بھلا دیں گے جس طرح انہوں نے اپنے اس دن کی ملاقات کو بھلائے رکھا) ظاہر ہے کہ یہاں بھلا دینے سے اس کا لازم یعنی عدم التفات مراد ہے، ورنہ اللہ کے کسی چیز کو بھلا دینے کے کیا معنی ؟ وہ تو کوئی چیز بھی کبھی نہیں بلاتا۔ اسی طرح فرمایا۔ فاذکرونی اذ کر کم (پس تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا) میں تمہیں یاد رکھوں گا، یعنی میری نظر عنایت تم پر برابر رہے گی، ہر قدم پر تمہاری مدد کروں گا، اپنا ایک ایک وعدہ جو میں تم سے کیا ہے پورا کروں گا اور مزید برآں اپنے فضل ابدی سے نوازوں گا۔ اسی اسلوب پر یہاں وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ سے مراد اس کا لازم ہے یعنی اہل ایمان جنت میں ایک دوسرے سے تپاک اور محبت سے ملیں گے، ایک دوسرے کا خیر مقدم کریں گے، آمنے سامنے بیٹھ کر آپس میں تبادلہ مہر و محبت کریں گے، ان کے درمیان کسی رنجش و کدورت کا شائبہ نہ ہوگا۔ یہی مضمون دوسرے مقامات میں علی سرر متقابلین کے الفاظ سے ادا ہوا ہے۔ یعنی وہ آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے اس لیے کہ ان کے دل ایک دوسرے سے بالکل صاف ہوں گے۔ ایک دوسرے سے منہ پھیر کر بیٹھنا باہمی رنجش کی دلیل ہے اور آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بیٹھنا باہمی اعتماد و محبت کی۔ قرآن نے یہاں وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ سے اہل جنت کی اسی حالت کا اظہار فرمایا ہے اور یہ بات ٹھیک ٹھیک اہل دوزخ کی اس حالت کے مقابل میں بیان ہوئی ہے جو اوپر بیان ہوئی۔ وہاں تو آپس میں لعنتوں کا تبادلہ ہوگا، جوتیوں میں دال بٹے گی اور یہاں مجلس مہر و محبت کی عطر بیزیوں سے معمور ہوگی۔ منزل پر پہنچنے کے بعد اہل جنت کا جذبہ شکر وسپاس : وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا لِھٰذَا، یہ وہ شکر ہے جو کسی طویل اور پر صعوبت سفر کے بعد منزل مقصود پر پہنچنے والا مسافر ادا کرتا ہے۔ هَدٰىنَا لِھٰذَا میں اللہ تعالیٰ کی اس توفیق بکشی کی طرف بھی اشارہ ہے جو طالبین حق کو ہر قدم پر حاصل ہوتی ہے اور اس رہنمائی کی طرف بھی جو اپنے نبیوں اور رسولوں کے ریعہ سے اللہ تعالیٰ مہیا فرمایا تا ہے۔ وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَآ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ، میں اس سفر کے پر صعوبت ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے اور اس بات کی طرف بھی کہ اہل جنت کو جو کامیابی حاصل ہوگی وہ ان کی توقعات اور امیدوں، ان کے قیاسات اور اندازوں سے اتنی زیادہ ہوگی کہ وہ اس کو خدا کا فضل ہی فضل سمجھیں گے، اس میں اپنی سعی و تدبیر کے کسی دخل کا ان کو گمان بھی نہ ہوگا۔ لَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ۔ اللہ تعالیٰ کے شکر کے بعد یہ انبیاء و رسل کی عظیم خدمات اور ان کی کہی ہوئی ہر بات کی صداقت کا اعتراف ہے یعنی اہل جنت رسولوں کی دی ہوئی ہر خبر کو واقعہ کی شکل میں دیکھ کر پکار اٹھیں گے کہ انہوں نے جو کچھ کہا حرف حرف حقیقت ثابت ہوا۔ اس میں ان لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جن کی تکذیب اور جن کے استکبار کا اوپر ذکر ہوا۔ وَنُوْدُوْٓا اَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل جنت کے لیے منادی عام ہوگی کہ اس جنت کے تم اپنے اعمال کے صلے میں وارچ بنائے گئے۔ اہل جنت کا خود اپنا احساس تو اوپر یہ نقل ہوا ہے کہ وہ اس جنت کو اپنی سعی وعمل کے بجائے صرف خدا کے فضل و احسان کا ثمرہ سمجھیں گے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو ان کے سعی و عمل کا ثمرہ قرار دے گا۔ یہ تکمیل نعمت کی معراج ہے۔ بندوں کے اعمال کا درجہ اس آیت نے اتنا اونچا کردیا ہے کہ اس سے زیادہ اعنچے درجے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا میں ہم جو کچھ پاتے ہیں خدا کے فضل ہی سے پاتے ہیں۔ آخر میں بھی خدا کے فضل ہی سے پائیں گے لیکن رب کریم اس کو ہمارا حق اور ہماری محنت کا ثمرہ قرار دے گا۔ کون اندازہ کرسکتا ہے اس ابدی بادشاہی کا جس کے متعلق ہر شخص کا شعور یہ ہوگا کہ اس نے اپنی کوششوں سے بنائی ہے اور یہ لازوال ہے۔ انسان صرف یہی نہیں چاہتا کہ اس کو نعمتیں حاصل ہوں بلکہ وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ نعمتیں اس کی اپنی ہوں۔ اس احساس کے بغیر وہ کسی نعمت کا صحیح لطف نہیں اٹھا سکتا۔ اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی فطرت کا یہ تقاضا بھی پورا کردے گا۔ ایک لطیف تلمیح۔ اس آیت میں وراثت کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس میں ایک لطیف تلمیح ہے اس ماجرے کی طرف جو اوپر آدم کے جنت سے نکالے جانے کا مذکور ہوا ہے۔ وہاں یہ ارشاد موجود ہے کہ اولادِ آدم میں سے وہی لوگ اپنے باپ کی اس جنت کے وارث ٹھہریں گے جو شیطان کی تمام فتنہ آرائیوں کے علی الرغم ایمان وعمل صالح کی صراط مستقیم پر قائم رہیں گے۔ یہاں اور ثتموھا کا لفظ استعمال کرکے گویا شاباش دے دی کہ بیشک تم نے بازی جیت لی اور اب تم حقدار ہو کہ تم اس جنت کے وارث بنائے جاؤ۔
Top