Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 50
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ١ؕ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِیْنَۙ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے اَصْحٰبَ : والے الْجَنَّةِ : جنت اَنْ : کہ اَفِيْضُوْا : بہاؤ (پہنچاؤ) عَلَيْنَا : ہم پر مِنَ : سے الْمَآءِ : پانی اَوْ : یا مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ : اللہ قَالُوْٓا : وہ کہیں گے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ حَرَّمَهُمَا : اسے حرام کردیا عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور دوزخ والے جنت والوں کو آواز دیں گے کہ پانی یا ان چیزوں میں سے، جو اللہ نے تمہیں بخش رکھی ہیں، کچھ ہم پر بھی کرم فرماؤ، وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ دونوں چیزیں کافروں کے لیے حرام کر رکھی ہیں
وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِيْضُوْا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاۗءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۭ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ۔ لفظ تحریم کا ایک خاص مفہمو : حَرَّمَهُمَا میں جس تحریم کا ذکر ہے یہ شرعی حرمت کے معنی میں نہیں ہے بلکہ یہ اس معنی میں ہے جس معنی میں فانہا محرمۃ علیہم اربعین سنۃ (مائدہ :26) (پس یہ سرزمین ان پر چالیس سال کے لیے حرام کردی گئی) میں ہے۔ یعنی چالیس سال کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو حتمی طور پر اس سرزمین سے محروم کردیا۔ ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو کسی چیز سے حتمی طور پر محروم کردے تو نہ وہ چیز کسی طرح اس کو پہنچ سکتی اور نہ وہ اس کو کسی طرح پا سکتا۔ اہل جنت کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں سوال کے پورے کرنے میں تو کوئی عذر نہیں ہے، ان کے پاس ہر نعمت کی فراوانی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں سے اہل دوزخ کو محروم کردیا ہے اس وجہ سے نہ یہ ان کو پہنچ سکتی ہیں نہ وہ ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
Top