Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 54
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا١ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ١ؕ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ
اِنَّ : بیشک رَبَّكُمُ : تمہارا رب اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو۔ جس خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین فِيْ : میں سِتَّةِ : چھ اَيَّامٍ : دن ثُمَّ : پھر اسْتَوٰى : قرار فرمایا عَلَي : پر الْعَرْشِ : عرش يُغْشِي : ڈھانکتا ہے الَّيْلَ : رات النَّهَارَ : دن يَطْلُبُهٗ : اس کے پیچھے آتا ہے حَثِيْثًا : دوڑتا ہوا وَّالشَّمْسَ : اور سورج وَالْقَمَرَ : اور چاند وَالنُّجُوْمَ : اور ستارے مُسَخَّرٰتٍ : مسخر بِاَمْرِهٖ : اس کے حکم سے اَلَا : یاد رکھو لَهُ : اس کے لیے الْخَلْقُ : پیدا کرنا وَالْاَمْرُ : اور حکم دینا تَبٰرَكَ : برکت والا ہے اللّٰهُ : اللہ رَبُّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
بیشک تمہارا رب وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر متمکن ہوا۔ ڈھانکتا ہے رات کو دن پر جو اس کا پوری سرگرمی سے تعاقب کرتی ہے اور اس نے سورج اور چاند اور ستارے پیدا کیے جو اس کے حکم سے مسخر ہیں۔ آگاہ کہ خلق اور امر اسی کے لیے خاص ہے۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، عالم کا رب !
فصل 8۔ آیات 54، 58 کا مضمون : اوپر بات شرک کی بےحقیقتی و بد انجامی پر ختم ہوئی تھی۔ آگے کی آیات میں توحید کے مضمون کی وضاحت فرما کر اس کی تکمیل کردی کہ آسمانوں اور زمین کا خالق خدا ہے اور وہ اس کائنات کو پیدا کر کے اس سے بےتعلق نہیں ہو بیٹھا ہے بلکہ اپنے عرش حکومت پر متمکن ہو کر تمام کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے۔ دن اور رات، سورج اور چاند، ستارے اور سیارے سب اسی کے احکام کی تعمیل میں شب و روز گردش میں ہیں۔ جس نے خلق کیا ہے اسی کا امر و حکم تمام کائنات پر جاری ہے اور خالق کائنات کے سوا دوسرا کوئی حق دار کس طرح ہوسکتا ہے کہ خدا کی خلق کی ہوئی کائنات میں اس کا حکم چلے، پھر یہ کائنات اپنے وجود سے شاہد ہے کہ اس کو خلق کرنے والی ہستی بڑی ہی با فیض اور نہایت ہی بابرکت و رحمت ہستی ہے تو سرا و علانیۃ ً اسی کو پکارو اور امید و بیم بہرحان میں اسی سے لَو لگاؤ۔ خدا کی خدائی میں کسی اور کو شریک گرداننا خدا سے بغاوت اور اس کی سرزمین میں فساد برپا کرنا ہے اور خدا ان لوگوں کو کبھی پسند نہیں کرتا جو اس سے سرتابی کریں اور اس کی زمین میں فساد مچائیں۔ اس کے بعد بارش کی ایک تمثیل پیش کی ہے جس سے بیک وقت تین حقیقتیں واضح فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ خدا کی رحمت اس کے نیکو کار بندوں سے بہت قریب ہے اس وجہ سے امید و بیم ہر حال میں خدا ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، خدا اور اس کی رحمت کو دور سمجھ کر دوسروں کا سہارا نہیں پکڑنا چاہیے، یہ خدا ہی ہے جو زمین کے خشک ہوجانے اور تمہارے مایوس ہوجانے کے بعد اپنی رحمت کی گھٹائیں اٹھاتا اور تمام زمین کو جل تھل کردیتا ہے۔ دوسری یہ کہ جس طرح تم زمین کو دیکھتے ہو کہ بالکل بےآب وگیاہ ہوجانے کے بعد بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی اس کے ہر گوشے میں زندگی نمودار ہوجاتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ جب چاہے گا تمہارے مر کھپ جانے کے بعد تمہیں از سرِ نو زندہ اٹھا کھڑا کرے گا۔ تیسری یہ کہ جس طرح بارش کا اثر مختلف صلاحیت کی زمینوں پر مختلف شکل میں نمایاں ہوتا ہے، زرخیز زمین لہلہا اٹھتی ہے، بنجر زمین صرف خار و خس اگاتی ہے، اسی طرح قرآن کی شکل میں ہدایت و رحمت کی جو بارش اس زمین پر نازل ہوئی ہے اس سے بھی مختلف صلاحیت کی طبیعتیں مختلف اتر لیں گی، جنہوں نے اپنی فطرت کو مسخ ہونے سے بچایا ہے وہ اس سے فٰض پائیں گے اور ان کے دل نور ایمان سے جگمگا اٹھیں گے۔ لیکن جن کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی ہے ان کے اندر صرف کفر وعناد کی جھاڑیاں اگیں گی۔ آیات کی تلاوت فرمائیے۔ اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۔ جو خالق ہے وہی رب ہے : اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ، ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ اہل عرب آسمان و زمین اور تمام دوسری چیزوں کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے لیکن رب انہوں نے اللہ کے سوا اور بھی بنا رکھے تھے۔ ان کا تصور یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا خلق کر کے اس کے انتظام و انصرام کے مختلف شعبے اپنے دوسرے کارندوں میں تقسیم کردیے ہیں اور اب ان شعبوں کے اصلی کرتا دھرتا وہی ہیں اس وجہ سے ان کی عبادت ضروری ہے۔ وہی خدا کے قرب کا واسطہ ہیں اور رزق و فضل اور مال و اولاد کے خزانوں پر عملاً انہی کا تصرف ہے۔ اگر ان کو نہ راضی رکھا جائے تو اکیلے اللہ تعالیٰ سے کام نہیں چل سکتا۔ انہی کارندوں کو وہ ارباب، شرکاء اور شفعاء کا درجہ دیتے تھے اور گو نظری طور پر ان کی میتھالوجی میں خدا کو خالق کائنات اور رب الارباب کی حیثیت حاصل تھی لیکن عملاً ان کی ساری وابستگی رب الارباب سے نہیں بلکہ ان فرضی ارباب ہی سے رہ گئی تھی۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کی اسی گمراہی پر ٹوکا ہے کہ جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، وہی رب بھی ہے، جب خالق وہ ہے اور اس سے تمہیں انکار نہیں تو دوسروں کو رب کس منطق سے بنائے بیٹھے ہو۔ تخلیق کائنات میں تدریج و ارتقاء کی حکمتیں : فی ستتہ ایام : میں ایام سے رماد یہ ہمارے چوبیس گھٹے والے دن نہیں ہیں بلکہ اس سے خدائی دن مراد ہیں۔ خدا کی اسکییں اس کے اپنے دنوں کے حساب سے بروئے کار آتی ہیں جو ہمارے حساب سے، جیسا قرآن میں تصریح ہے، ہزار سال کے برابر بھی ہوتے ہیں اور پچاس ہزار سال کے برابر بھی۔ اس وجہ سے چھ دنوں سے مراد چھ ادوار ہیں۔ دنیا کا چھ ادوار میں پیدا ہونا تورات میں بھی مذکور ہے اور قرآن میں بھی بلکہ جہاں تک اس کے تدریجی ارتقا کا تعلق ہے فلسفہ جدید بھی بڑے شدومد سے اس کا مدعی ہے۔ اس وجہ سے بجائے خود اس کائنات کا ارتقا قدیم و جدید میں متنازع فیہ نہیں ہے البتہ نظریہ ارتقاء کی تقریر اس کے عَلَم برداروں کی طرف سے جس انداز میں کی جاتی ہے اس میں بہت سے منطقی خلا ہیں جو اس وقت تک نہیں بھر سکتے جب تک ان عقلی و فطری اصولوں کو تسلیم نہ کیا جائے جو قرا ان نے اس ارتقا کے بیان فرمائے ہم انشاء اللہ اس کے محل میں اس مسئلہ پر گفتگو کریں گے۔ دلائل توحید :۔ اللہ تعالیٰ اس پوری کائنات کو چھ دنوں، یا چھ ادوار میں پیدا کرنے کے بجائے اپنے ایک کلمہ کون سے آن کے آن میں بھی پیدا کرسکتا تھا۔ یہ بات اس کی قدرت سے بعید نہیں تھی۔ لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ یہ چھ ادوار میں پیدا ہو۔ خدا نے اپنے خلق و تدبیر کے ہر شعبے میں جس طرح اپنی قدرت نمایاں فرمائی ہے اسی طرح اپنی حکمت، ربوبیت اور رحمت کی شانیں بھی نمایاں فرمائی ہیں اور اس کی ان شانوں کا نمایاں ہونا بھی انسان کے کمال عقلی و روحانی کے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح خدا کے کمال قدرت کا نمایاں ہونا ضروری ہے۔ ہم نے سورة انعام کی تفسیر میں واضح کیا ہے کہ خدا کی قدرت سے یہ بات بعید نہیں تھی کہ ہماری غذا کے لیے براہ راست آسمان سے روٹی برستی پھر یہ کیوں ضروری ہوا کہ ہوائیں چلیں، بادل اٹھیں، مینہ برسے، کھیتوں میں ہل چلیں، گندم بوئی جائے، انکھوے نکلیں، ڈنٹھل پیدا ہوں، اس میں برگ و بار نمایاں ہوں، فصل اپجے، خوشے نمودار ہوں، پھر ان میں دانے بیٹھیں، پھر گرم و خشک ہوائیں چلیں جو ان دانوں کو پکائیں اور اس طرح کہیں چھ مہینے کے گرم و سرد مراحل سے گزر کر گندم کا دانہ کھیت سے کسان کے کھتے تک پہنچے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ اس طرح اس کائنات کی ایک ایک چیز خدا کی آیت خالق و تدبیر اور اس کے عجائب قدرت و حکمت کا ایک دفتر بن گئی ہے۔ انسان اس کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالتا ہے اگر آنکھیں کھلی ہوئی اور عقل بیدار ہو تو معرفتِ الٰہی کا ایک دبستان کھل جاتا ہے۔ ایک ایک شے نہ جانے کتنے بھیس بدلتی اور کتنے جامے تبدیل کرتی ہے تاکہ وہ ہمیں اپنی طرف متوجہ کرے اور ہم ان کے اندر خدا کی نشانیوں کو دیکھیں اور ان سے سبق حاصل کریں۔ جو حال اس دنیا کے ذرے ذرے کا ہے وہی حال بحیثیت مجموعی اس دنیا کا ہے۔ یہ بھی ایک حادژہ کے طور پر یک بیک بن کر نہیں کھڑی ہوگئی ہے بلکہ اس کی عمیر کرنے والے نے بڑی تدریج و حکمت اور بڑے اہتام کے اتھ مختلف مراحل میں اس کو تکمیل تک پہنچایا ہے ویہاں تک کہ وہ وہ انسان فروکش ہونے کے لیے تمام ضروری و لوازم سے آراستہ ہوگئی۔ یہ اہتمام و تدریج شاہد ہے کہ یہ کوئی اتفاق حادثہ یا کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے بلکہ ایک باغایت و بامقصد کارخانہ ہے اور ضرور ہے کہ ایک دن وہ غایت و مقصد ظہور میں آئے۔ اس نکتہ پر مفصل بحث ہم سورة ہود کی آیت 7 کے تحت کریں گے جہاں اس اہتمام کے پہلو سے جزا و سزا پر استدلال کیا ہے۔ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ۔ یہ اس شان اہتمام کے ساتھ آسمان و زمین کو پیدا کرنے کا ایک بدیہی نتیجہ بیان ہوا ہے کہ جس نے یہ سارا کارخانہ اس تدریج و اہتمام کے ساتھ بنایا سنوارا کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس کو پیدا کر کے اس کی تدبیر و انتظام سے بالکل بےتعلق ہو کر کسی گوشے میں جا بیٹھے، اس خلق کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کو پیدا کرنے کے بعد اس کے تخت حکومت پر متکمن ہو کر اس کے تمام امور و معاملات کا انتظام بھی فرمائے، چناچہ اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے بعض جگہ استوی علی العرش کے ساتھ یدبر الامر بھی آیات ہے، خدا خلق تو کرے لیکن پھر اس کا انتظام نہ کرے یہ خدا پر نہایت ہی سفیہانہ تہمت ہے۔ ایک بادشاہ اگر بڑے اہتمام سے ملک حاصل کرے لیکن ملک حاصل کر کے کسی گوشے میں جا بیٹھے، اس میں امن و عدل کا اہتمام نہ کرے، مفسدین اس میں دھاندلی مچاتے پھریں تو ساری خلق اس کو نالائق بادشاہ کہے گی، پھر ایک معمولی بادشاہ کے لیے جو بات عیب میں داخل ہے آسمان و زمین کے خالق ومالک کے لیے وہ بات کس طرح باور کی جاسکتی ہے ؟ یہ مشرکین کے اس مزعونہ کی تردید ہے کہ خدا خالق تو ہے لیکن آسمان و زمین کو خلق کر کے اس نے عالم کا انتظام و انصرام اپنے دوسرے شرکاء کے حوالے کردیا ہے اور خود الگ تھلگ جا بیٹھا ہے۔ ساتھ ہی یہ ان کم سواد فلسفیوں کی بھی تردیدی ہے جو خدا کو صرف ایک گوشہ نشین علت العلل کا درجہ دیتے ہیں جس نے محرک اول کی حیثیت سے ایک حرکت تو پیدا کردی لیکن پھر اس کو اس سے کچھ بحث نہیں رہی کہ اس کی اس حرکت کے کیا نتائج نکلتے ہیں اور اس کو کنٹرول کرنا کس کی ذمہ داری ہے، فرمایا کہ خدا کائنات کے پیدا کر کے عرش پر متمکن ہے اور کائنات کا انتظام فرما رہا ہے۔ عرش، اقتدار کی تعبیر ہے اور استوی کے بعد جب علی آتا ہے تو اس کے معنی تمکن کے ہوجاتے ہیں۔ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا۔ حثیث، اور حثوث، کے معنی تیز اور سرگرم کے ہیں، یہ اس تدبیر و انتظام کی وضاحت ہو رہی ہے جو استوی علی العرش کے اندر مضمر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس نظام کائنات میں جو حرکت بھی ہو رہی ہے سب اس کے خالق ہی کی تدبیر و انتظام سے ہو رہی ہے۔ وہی ہے جو رات کو دن پر ڈھانکتا ہے اور اسی کے حکم اسے سرگرمی سے وہ اس کا تعاقب کر رہی ہے۔ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ، وہی ہے جس نے سورج اور چاند اور دوسرے تمام نجوم و کواکب پیدا کیے، مسخرات بامرہ، یعنی وہ اپنے اپنے معینہ فرائض اور اپنے اپنے معینہ حدود قیود کے خدا کے حکم سے پابند ہیں اور پوری سرگرمی کے ساتھ شب و روز اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ مجال نہیں ہے کہ ایک پل کے لیے بھی غافل ہوں یا بال برابر بھی اپنے حدود سے متجاوز جو خالق ہے اسی کو حکومت کا حق ہے : ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ، بیان واقعہ بھی ہے اور اظہار حق بھی۔ یعنی جس نے یہ کائنات خلق کی ہے اسی کا امر و حکم، اس کے گوشہ گوشہ میں جاری ہے، ذرہ ذرہ شب و روز اسی کے احکام کی تعمیل میں پورے جوش و خروش کے ساتھ سرگرم کار ہے اور یہی حق بھی ہے کہ اسی کا امر و حکم اس کے ہر گوشے میں چلے اس لیے کہ جس نے خلق کیا ہے اس کے سوا کسی اور کا حکم اس میں چل کس استحقاق کی بنا پر سکتا ہے یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ حثیثا کے لفظ سے اس امر کا اظہار ہو رہا ہے کہ ہر چیز پورے جوش و سرگرمی کے ساتھ اپنے مفوضہ فرائض انجام دے رہی ہے، کسی چیز سے بھی نیم دلی یا سرد مہری کا اظہار نہیں ہوتا۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ انسان کے لیے بھی خدا کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے یہی رویہ زیبا ہے کہ وہ اس کی بندگی اور اطاعت میں اسی طرح سرگرم ہو۔ دوسری بات یہ قابل لحاظ ہے کہ یہاں رات کی سرگرمی کا ذکر تو فرمایا لیکن دن کی سرگرمی کا ذکر نہیں فرمایا در آنحالیکہ دوسرے مقام میں رات کے ساتھ دن کا بھی زکر فرمایا ہے مثلا وھو الذی جعل اللیل والنہار خلفۃ لمن اراد ان یذکر او اراد شکور (الفرقان :62)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں رات کے ذکر کے بعد سورج کا ذکر آگیا ہے جس سے مقابل پہلو خود بخود واضح ہوگیا۔ خدا اپنے جلال اور رحمت دونوں میں یکتا ہے : تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ، تفاعل میں غایت درجہ مبالغہ کا مضمون پایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے تبارک اللہ کے معنی ہوں گے، بڑی ہی برکت و رحمت والی ہستی ہے اللہ۔ اوپر اللہ تعالیٰ نے اپنے خلق و تدبیر کی جو شانیں واضح فرمائی ہیں ان سے، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، جس طرح خدا کی قدرت و عظمت کا اظہار ہو رہا ہے اسی طرح اس کی رحمت و ربوبیت، اس کے جود و نوال اور اس کی کرم نوازی و فیض بخشی کا بھی اظہار ہو رہا ہے۔ یہ خدا کے باب میں اس غلط فہمی کا ازالہ ہے جس میں مشرک قومیں بالعموم مبتلا ہوئیں۔ کہ انہوں نے خدا کی عظمت و جبروت کا تصور اس قدر بڑھایا کہ اس کی صفات رحمت و برکت کا تصور اس کے نیچے بالکل دب کر رہ گیا۔ اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بندوں کے لیے خدا سے براہ راست تعلق و توسل ناممکن سمجھ لیا گیا اور پھر ایسے وسائل و وسایط کی تلاش ہوئی جو خدا سے مقصد برا آری کا ذریعہ بن سکٰں۔ ہم بقرہ کی تسیر میں بیان کرچکے ہیں کہ صفات الٰہی کے باب میں یہ گمراہی شرت کے عوامل میں سے ایک بہتر بڑا عامل ہے۔ مشرکین نے بہت سے فرضی معبودوں کے پرستش، بالخصوس ملائکہ کی پرستش، اسی وجہ سے کرنی شروع کی کہ یہ خدا کی چہیتی بیٹیاں ہیں، یہ ہم سے راضی رہیں تو یہ اپنے باپ کو ہم سے راضی رکھیں گی اور پھر سارا جہان ہم پر مہربان ہوجائے گا۔ قرآن نے یہاں تبارک اللہ رب العالمین کے الفاط سے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ کائنات جس طرح اپنے خالق کی بےپایاں عظمت و جبروت پر شاہد ہے اسی طرح اس کی بےپایاں برکت و رحمت پر بھی گواہ ہے تو اس سے مانگنے کے لیے کسی واسطے اور وسیلے کی ضرورت نہیں، خوف اور طمع، امید اور بیم ہر حال میں اسی کو پکارو اور اسی سے مانگو، جس طرح وہ اپنے جلال میں یکتا ہے اسی طرح اپنی رحمت میں بھی یکتا ہے۔
Top