Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 54
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ١۫ یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًا١ۙ وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖ١ؕ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ١ؕ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكُمُ
: تمہارا رب
اللّٰهُ
: اللہ
الَّذِيْ
: وہ جو۔ جس
خَلَقَ
: پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
فِيْ
: میں
سِتَّةِ
: چھ
اَيَّامٍ
: دن
ثُمَّ
: پھر
اسْتَوٰى
: قرار فرمایا
عَلَي
: پر
الْعَرْشِ
: عرش
يُغْشِي
: ڈھانکتا ہے
الَّيْلَ
: رات
النَّهَارَ
: دن
يَطْلُبُهٗ
: اس کے پیچھے آتا ہے
حَثِيْثًا
: دوڑتا ہوا
وَّالشَّمْسَ
: اور سورج
وَالْقَمَرَ
: اور چاند
وَالنُّجُوْمَ
: اور ستارے
مُسَخَّرٰتٍ
: مسخر
بِاَمْرِهٖ
: اس کے حکم سے
اَلَا
: یاد رکھو
لَهُ
: اس کے لیے
الْخَلْقُ
: پیدا کرنا
وَالْاَمْرُ
: اور حکم دینا
تَبٰرَكَ
: برکت والا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
رَبُّ
: رب
الْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہان
بیشک تمہارا رب وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر متمکن ہوا۔ ڈھانکتا ہے رات کو دن پر جو اس کا پوری سرگرمی سے تعاقب کرتی ہے اور اس نے سورج اور چاند اور ستارے پیدا کیے جو اس کے حکم سے مسخر ہیں۔ آگاہ کہ خلق اور امر اسی کے لیے خاص ہے۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، عالم کا رب !
فصل 8۔ آیات 54، 58 کا مضمون : اوپر بات شرک کی بےحقیقتی و بد انجامی پر ختم ہوئی تھی۔ آگے کی آیات میں توحید کے مضمون کی وضاحت فرما کر اس کی تکمیل کردی کہ آسمانوں اور زمین کا خالق خدا ہے اور وہ اس کائنات کو پیدا کر کے اس سے بےتعلق نہیں ہو بیٹھا ہے بلکہ اپنے عرش حکومت پر متمکن ہو کر تمام کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے۔ دن اور رات، سورج اور چاند، ستارے اور سیارے سب اسی کے احکام کی تعمیل میں شب و روز گردش میں ہیں۔ جس نے خلق کیا ہے اسی کا امر و حکم تمام کائنات پر جاری ہے اور خالق کائنات کے سوا دوسرا کوئی حق دار کس طرح ہوسکتا ہے کہ خدا کی خلق کی ہوئی کائنات میں اس کا حکم چلے، پھر یہ کائنات اپنے وجود سے شاہد ہے کہ اس کو خلق کرنے والی ہستی بڑی ہی با فیض اور نہایت ہی بابرکت و رحمت ہستی ہے تو سرا و علانیۃ ً اسی کو پکارو اور امید و بیم بہرحان میں اسی سے لَو لگاؤ۔ خدا کی خدائی میں کسی اور کو شریک گرداننا خدا سے بغاوت اور اس کی سرزمین میں فساد برپا کرنا ہے اور خدا ان لوگوں کو کبھی پسند نہیں کرتا جو اس سے سرتابی کریں اور اس کی زمین میں فساد مچائیں۔ اس کے بعد بارش کی ایک تمثیل پیش کی ہے جس سے بیک وقت تین حقیقتیں واضح فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ خدا کی رحمت اس کے نیکو کار بندوں سے بہت قریب ہے اس وجہ سے امید و بیم ہر حال میں خدا ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، خدا اور اس کی رحمت کو دور سمجھ کر دوسروں کا سہارا نہیں پکڑنا چاہیے، یہ خدا ہی ہے جو زمین کے خشک ہوجانے اور تمہارے مایوس ہوجانے کے بعد اپنی رحمت کی گھٹائیں اٹھاتا اور تمام زمین کو جل تھل کردیتا ہے۔ دوسری یہ کہ جس طرح تم زمین کو دیکھتے ہو کہ بالکل بےآب وگیاہ ہوجانے کے بعد بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی اس کے ہر گوشے میں زندگی نمودار ہوجاتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ جب چاہے گا تمہارے مر کھپ جانے کے بعد تمہیں از سرِ نو زندہ اٹھا کھڑا کرے گا۔ تیسری یہ کہ جس طرح بارش کا اثر مختلف صلاحیت کی زمینوں پر مختلف شکل میں نمایاں ہوتا ہے، زرخیز زمین لہلہا اٹھتی ہے، بنجر زمین صرف خار و خس اگاتی ہے، اسی طرح قرآن کی شکل میں ہدایت و رحمت کی جو بارش اس زمین پر نازل ہوئی ہے اس سے بھی مختلف صلاحیت کی طبیعتیں مختلف اتر لیں گی، جنہوں نے اپنی فطرت کو مسخ ہونے سے بچایا ہے وہ اس سے فٰض پائیں گے اور ان کے دل نور ایمان سے جگمگا اٹھیں گے۔ لیکن جن کے اندر خیر کی کوئی رمق باقی نہیں رہی ہے ان کے اندر صرف کفر وعناد کی جھاڑیاں اگیں گی۔ آیات کی تلاوت فرمائیے۔ اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ۔ جو خالق ہے وہی رب ہے : اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ، ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ اہل عرب آسمان و زمین اور تمام دوسری چیزوں کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے لیکن رب انہوں نے اللہ کے سوا اور بھی بنا رکھے تھے۔ ان کا تصور یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا خلق کر کے اس کے انتظام و انصرام کے مختلف شعبے اپنے دوسرے کارندوں میں تقسیم کردیے ہیں اور اب ان شعبوں کے اصلی کرتا دھرتا وہی ہیں اس وجہ سے ان کی عبادت ضروری ہے۔ وہی خدا کے قرب کا واسطہ ہیں اور رزق و فضل اور مال و اولاد کے خزانوں پر عملاً انہی کا تصرف ہے۔ اگر ان کو نہ راضی رکھا جائے تو اکیلے اللہ تعالیٰ سے کام نہیں چل سکتا۔ انہی کارندوں کو وہ ارباب، شرکاء اور شفعاء کا درجہ دیتے تھے اور گو نظری طور پر ان کی میتھالوجی میں خدا کو خالق کائنات اور رب الارباب کی حیثیت حاصل تھی لیکن عملاً ان کی ساری وابستگی رب الارباب سے نہیں بلکہ ان فرضی ارباب ہی سے رہ گئی تھی۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کی اسی گمراہی پر ٹوکا ہے کہ جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، وہی رب بھی ہے، جب خالق وہ ہے اور اس سے تمہیں انکار نہیں تو دوسروں کو رب کس منطق سے بنائے بیٹھے ہو۔ تخلیق کائنات میں تدریج و ارتقاء کی حکمتیں : فی ستتہ ایام : میں ایام سے رماد یہ ہمارے چوبیس گھٹے والے دن نہیں ہیں بلکہ اس سے خدائی دن مراد ہیں۔ خدا کی اسکییں اس کے اپنے دنوں کے حساب سے بروئے کار آتی ہیں جو ہمارے حساب سے، جیسا قرآن میں تصریح ہے، ہزار سال کے برابر بھی ہوتے ہیں اور پچاس ہزار سال کے برابر بھی۔ اس وجہ سے چھ دنوں سے مراد چھ ادوار ہیں۔ دنیا کا چھ ادوار میں پیدا ہونا تورات میں بھی مذکور ہے اور قرآن میں بھی بلکہ جہاں تک اس کے تدریجی ارتقا کا تعلق ہے فلسفہ جدید بھی بڑے شدومد سے اس کا مدعی ہے۔ اس وجہ سے بجائے خود اس کائنات کا ارتقا قدیم و جدید میں متنازع فیہ نہیں ہے البتہ نظریہ ارتقاء کی تقریر اس کے عَلَم برداروں کی طرف سے جس انداز میں کی جاتی ہے اس میں بہت سے منطقی خلا ہیں جو اس وقت تک نہیں بھر سکتے جب تک ان عقلی و فطری اصولوں کو تسلیم نہ کیا جائے جو قرا ان نے اس ارتقا کے بیان فرمائے ہم انشاء اللہ اس کے محل میں اس مسئلہ پر گفتگو کریں گے۔ دلائل توحید :۔ اللہ تعالیٰ اس پوری کائنات کو چھ دنوں، یا چھ ادوار میں پیدا کرنے کے بجائے اپنے ایک کلمہ کون سے آن کے آن میں بھی پیدا کرسکتا تھا۔ یہ بات اس کی قدرت سے بعید نہیں تھی۔ لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ یہ چھ ادوار میں پیدا ہو۔ خدا نے اپنے خلق و تدبیر کے ہر شعبے میں جس طرح اپنی قدرت نمایاں فرمائی ہے اسی طرح اپنی حکمت، ربوبیت اور رحمت کی شانیں بھی نمایاں فرمائی ہیں اور اس کی ان شانوں کا نمایاں ہونا بھی انسان کے کمال عقلی و روحانی کے لیے اسی طرح ضروری ہے جس طرح خدا کے کمال قدرت کا نمایاں ہونا ضروری ہے۔ ہم نے سورة انعام کی تفسیر میں واضح کیا ہے کہ خدا کی قدرت سے یہ بات بعید نہیں تھی کہ ہماری غذا کے لیے براہ راست آسمان سے روٹی برستی پھر یہ کیوں ضروری ہوا کہ ہوائیں چلیں، بادل اٹھیں، مینہ برسے، کھیتوں میں ہل چلیں، گندم بوئی جائے، انکھوے نکلیں، ڈنٹھل پیدا ہوں، اس میں برگ و بار نمایاں ہوں، فصل اپجے، خوشے نمودار ہوں، پھر ان میں دانے بیٹھیں، پھر گرم و خشک ہوائیں چلیں جو ان دانوں کو پکائیں اور اس طرح کہیں چھ مہینے کے گرم و سرد مراحل سے گزر کر گندم کا دانہ کھیت سے کسان کے کھتے تک پہنچے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ اس طرح اس کائنات کی ایک ایک چیز خدا کی آیت خالق و تدبیر اور اس کے عجائب قدرت و حکمت کا ایک دفتر بن گئی ہے۔ انسان اس کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالتا ہے اگر آنکھیں کھلی ہوئی اور عقل بیدار ہو تو معرفتِ الٰہی کا ایک دبستان کھل جاتا ہے۔ ایک ایک شے نہ جانے کتنے بھیس بدلتی اور کتنے جامے تبدیل کرتی ہے تاکہ وہ ہمیں اپنی طرف متوجہ کرے اور ہم ان کے اندر خدا کی نشانیوں کو دیکھیں اور ان سے سبق حاصل کریں۔ جو حال اس دنیا کے ذرے ذرے کا ہے وہی حال بحیثیت مجموعی اس دنیا کا ہے۔ یہ بھی ایک حادژہ کے طور پر یک بیک بن کر نہیں کھڑی ہوگئی ہے بلکہ اس کی عمیر کرنے والے نے بڑی تدریج و حکمت اور بڑے اہتام کے اتھ مختلف مراحل میں اس کو تکمیل تک پہنچایا ہے ویہاں تک کہ وہ وہ انسان فروکش ہونے کے لیے تمام ضروری و لوازم سے آراستہ ہوگئی۔ یہ اہتمام و تدریج شاہد ہے کہ یہ کوئی اتفاق حادثہ یا کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے بلکہ ایک باغایت و بامقصد کارخانہ ہے اور ضرور ہے کہ ایک دن وہ غایت و مقصد ظہور میں آئے۔ اس نکتہ پر مفصل بحث ہم سورة ہود کی آیت 7 کے تحت کریں گے جہاں اس اہتمام کے پہلو سے جزا و سزا پر استدلال کیا ہے۔ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ۔ یہ اس شان اہتمام کے ساتھ آسمان و زمین کو پیدا کرنے کا ایک بدیہی نتیجہ بیان ہوا ہے کہ جس نے یہ سارا کارخانہ اس تدریج و اہتمام کے ساتھ بنایا سنوارا کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس کو پیدا کر کے اس کی تدبیر و انتظام سے بالکل بےتعلق ہو کر کسی گوشے میں جا بیٹھے، اس خلق کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کو پیدا کرنے کے بعد اس کے تخت حکومت پر متکمن ہو کر اس کے تمام امور و معاملات کا انتظام بھی فرمائے، چناچہ اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے بعض جگہ استوی علی العرش کے ساتھ یدبر الامر بھی آیات ہے، خدا خلق تو کرے لیکن پھر اس کا انتظام نہ کرے یہ خدا پر نہایت ہی سفیہانہ تہمت ہے۔ ایک بادشاہ اگر بڑے اہتمام سے ملک حاصل کرے لیکن ملک حاصل کر کے کسی گوشے میں جا بیٹھے، اس میں امن و عدل کا اہتمام نہ کرے، مفسدین اس میں دھاندلی مچاتے پھریں تو ساری خلق اس کو نالائق بادشاہ کہے گی، پھر ایک معمولی بادشاہ کے لیے جو بات عیب میں داخل ہے آسمان و زمین کے خالق ومالک کے لیے وہ بات کس طرح باور کی جاسکتی ہے ؟ یہ مشرکین کے اس مزعونہ کی تردید ہے کہ خدا خالق تو ہے لیکن آسمان و زمین کو خلق کر کے اس نے عالم کا انتظام و انصرام اپنے دوسرے شرکاء کے حوالے کردیا ہے اور خود الگ تھلگ جا بیٹھا ہے۔ ساتھ ہی یہ ان کم سواد فلسفیوں کی بھی تردیدی ہے جو خدا کو صرف ایک گوشہ نشین علت العلل کا درجہ دیتے ہیں جس نے محرک اول کی حیثیت سے ایک حرکت تو پیدا کردی لیکن پھر اس کو اس سے کچھ بحث نہیں رہی کہ اس کی اس حرکت کے کیا نتائج نکلتے ہیں اور اس کو کنٹرول کرنا کس کی ذمہ داری ہے، فرمایا کہ خدا کائنات کے پیدا کر کے عرش پر متمکن ہے اور کائنات کا انتظام فرما رہا ہے۔ عرش، اقتدار کی تعبیر ہے اور استوی کے بعد جب علی آتا ہے تو اس کے معنی تمکن کے ہوجاتے ہیں۔ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا۔ حثیث، اور حثوث، کے معنی تیز اور سرگرم کے ہیں، یہ اس تدبیر و انتظام کی وضاحت ہو رہی ہے جو استوی علی العرش کے اندر مضمر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس نظام کائنات میں جو حرکت بھی ہو رہی ہے سب اس کے خالق ہی کی تدبیر و انتظام سے ہو رہی ہے۔ وہی ہے جو رات کو دن پر ڈھانکتا ہے اور اسی کے حکم اسے سرگرمی سے وہ اس کا تعاقب کر رہی ہے۔ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ، وہی ہے جس نے سورج اور چاند اور دوسرے تمام نجوم و کواکب پیدا کیے، مسخرات بامرہ، یعنی وہ اپنے اپنے معینہ فرائض اور اپنے اپنے معینہ حدود قیود کے خدا کے حکم سے پابند ہیں اور پوری سرگرمی کے ساتھ شب و روز اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ مجال نہیں ہے کہ ایک پل کے لیے بھی غافل ہوں یا بال برابر بھی اپنے حدود سے متجاوز جو خالق ہے اسی کو حکومت کا حق ہے : ۭاَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ، بیان واقعہ بھی ہے اور اظہار حق بھی۔ یعنی جس نے یہ کائنات خلق کی ہے اسی کا امر و حکم، اس کے گوشہ گوشہ میں جاری ہے، ذرہ ذرہ شب و روز اسی کے احکام کی تعمیل میں پورے جوش و خروش کے ساتھ سرگرم کار ہے اور یہی حق بھی ہے کہ اسی کا امر و حکم اس کے ہر گوشے میں چلے اس لیے کہ جس نے خلق کیا ہے اس کے سوا کسی اور کا حکم اس میں چل کس استحقاق کی بنا پر سکتا ہے یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ حثیثا کے لفظ سے اس امر کا اظہار ہو رہا ہے کہ ہر چیز پورے جوش و سرگرمی کے ساتھ اپنے مفوضہ فرائض انجام دے رہی ہے، کسی چیز سے بھی نیم دلی یا سرد مہری کا اظہار نہیں ہوتا۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ انسان کے لیے بھی خدا کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے یہی رویہ زیبا ہے کہ وہ اس کی بندگی اور اطاعت میں اسی طرح سرگرم ہو۔ دوسری بات یہ قابل لحاظ ہے کہ یہاں رات کی سرگرمی کا ذکر تو فرمایا لیکن دن کی سرگرمی کا ذکر نہیں فرمایا در آنحالیکہ دوسرے مقام میں رات کے ساتھ دن کا بھی زکر فرمایا ہے مثلا وھو الذی جعل اللیل والنہار خلفۃ لمن اراد ان یذکر او اراد شکور (الفرقان :62)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں رات کے ذکر کے بعد سورج کا ذکر آگیا ہے جس سے مقابل پہلو خود بخود واضح ہوگیا۔ خدا اپنے جلال اور رحمت دونوں میں یکتا ہے : تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ، تفاعل میں غایت درجہ مبالغہ کا مضمون پایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے تبارک اللہ کے معنی ہوں گے، بڑی ہی برکت و رحمت والی ہستی ہے اللہ۔ اوپر اللہ تعالیٰ نے اپنے خلق و تدبیر کی جو شانیں واضح فرمائی ہیں ان سے، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، جس طرح خدا کی قدرت و عظمت کا اظہار ہو رہا ہے اسی طرح اس کی رحمت و ربوبیت، اس کے جود و نوال اور اس کی کرم نوازی و فیض بخشی کا بھی اظہار ہو رہا ہے۔ یہ خدا کے باب میں اس غلط فہمی کا ازالہ ہے جس میں مشرک قومیں بالعموم مبتلا ہوئیں۔ کہ انہوں نے خدا کی عظمت و جبروت کا تصور اس قدر بڑھایا کہ اس کی صفات رحمت و برکت کا تصور اس کے نیچے بالکل دب کر رہ گیا۔ اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بندوں کے لیے خدا سے براہ راست تعلق و توسل ناممکن سمجھ لیا گیا اور پھر ایسے وسائل و وسایط کی تلاش ہوئی جو خدا سے مقصد برا آری کا ذریعہ بن سکٰں۔ ہم بقرہ کی تسیر میں بیان کرچکے ہیں کہ صفات الٰہی کے باب میں یہ گمراہی شرت کے عوامل میں سے ایک بہتر بڑا عامل ہے۔ مشرکین نے بہت سے فرضی معبودوں کے پرستش، بالخصوس ملائکہ کی پرستش، اسی وجہ سے کرنی شروع کی کہ یہ خدا کی چہیتی بیٹیاں ہیں، یہ ہم سے راضی رہیں تو یہ اپنے باپ کو ہم سے راضی رکھیں گی اور پھر سارا جہان ہم پر مہربان ہوجائے گا۔ قرآن نے یہاں تبارک اللہ رب العالمین کے الفاط سے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ کائنات جس طرح اپنے خالق کی بےپایاں عظمت و جبروت پر شاہد ہے اسی طرح اس کی بےپایاں برکت و رحمت پر بھی گواہ ہے تو اس سے مانگنے کے لیے کسی واسطے اور وسیلے کی ضرورت نہیں، خوف اور طمع، امید اور بیم ہر حال میں اسی کو پکارو اور اسی سے مانگو، جس طرح وہ اپنے جلال میں یکتا ہے اسی طرح اپنی رحمت میں بھی یکتا ہے۔
Top