Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 59
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
لَقَدْ اَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖ : اس کی قوم فَقَالَ : پس اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا : نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنِّىْٓ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ عَظِيْمٍ : ایک بڑا دن
ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا، اس نے ان کو دعوت دی اے میرے ہم قومو، اللہ ہی کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی اور معبود نہیں۔ میں تم پر ایک ہولناک دن کے عذاب کے تسلط سے ڈرتا ہوں۔
فصل 10۔ آیات 59۔۔۔ 93: اب آگے وہی انذار کا مضمون، جو اوپر سے چلا آ رہا ہے، تاریخی دلائل سے واضح کیا گیا ہے اور عرب کی پچھلی قوموں میں سے ایک ایک کو لے کر دکھایا ہے کہ کس طرح اللہ نے ان کو اس سرزمین میں اقتدار بخشا لیکن انہوں نے اقتدار پا کر ناشکری کی روش اختیار کی، زمین میں اصلاح کے بعد فساد برپا کیا، عدل و قسط کو درہم برہم کیا، بالاخر اللہ نے ان کے اندر اپنا رسول بھیجا جس نے ان کو توحید اور عدل و قسط کے قیا کی دعوت دی لیکن انہوں نے اپنے غرور اور گھمنڈ کے سبب سے نہ صرف یہ کہ رسول کی بات مانی نہیں بلکہ اس کے درپے آزار ہوگئے، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ایک خاص حد تک مہلت دینے کے بعد اس قوم کو تباہ کردیا۔ قریش کو یہ ساری تاریخ سنانے سے مقصود یہ ہے کہ اب ان کا معاملہ بھی اسی عدالت میں ہے جس میں ان تمام قوموں کے مقدمے پیش ہو کر فیصل ہوئے اور وہ اپنے کیفرِ کردار کو پہنچیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ اگر انہوں نے بھی وہی روش اختیار کی جو ان قوموں نے اختیار کی تو اس بےلاگ عدالت کا فیصلہ ان کے لیے کچھ مختلف ہو، خدا قانون سب کے لیے ایک ہے۔ خدا جب کسی قوم میں اپنا رسولبھیج دیتا ہے تو اس قوم کے لیے دو ہی راہیں باقی رہ جاتی ہیں یا تو وہ اصلاح قبول کرے یا ہاکت، اس کے سوا کوئی راہ باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ واضح رہے کہ آگے جن قوموں کی سرگزشتیں آرہی ہیں اہل عرب ان سے واقف تھے لیکن یہ واقفیت دھندلی دھندلی مبہم روایات کی شکل میں تھی، خاص کر ان کا اخلاقی پہلو تو بالکل ہی مبہم تھا۔ قرآن نے یہ ابہام کا پردہ اٹھا کر تاریخ و ازسرِ نو زندہ کیا اور ان کو دعوت دی کہ کان کھول کر ان سرگزشتوں کو سنیں اور ان سے عبرت حاصل کریں، یہ دوسروں ہی کی حکایت نہیں ہے بلکہ یہ خود ان کی اپنی حکایت بھی ہے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔ حضرت نوح ؑ اور ان کی دعوت : لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ الایۃ، اس سورة میں چونکہ قریش کو آگاہ کیا جا رہا ہے اس وجہ سے پہلے انہی قوموں کو لیا ہے، جو عرب کے شمال یا جنوب یا شمال مغرب میں نامور ہوئیں اور جو رسولوں کی تکذیب کے نتیجہ میں کیفر کردار کو پہنچیں۔ ترتیب بیان بالکل تاریخی ہے اس وجہ سے قوم نوح کو سب سے پہلے لیا، ہر قوم کی سرگزشت میں سے صرف اتنا ہی حصہ نمایاں کیا ہے جتنا انذار کے مقصد کے لحاظ سے ضروری تھا۔ انبیاء کی دعوت کی مشترک حقیقت : فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ، اوپر ہم ذکر کرچکے ہیں کہ تمام فساد فی الارض کی جڑ شرک ہے۔ کسی قوم کے شرک میں مبتلا ہوجانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ نظریات و عقائد اور اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر اعمال و اخلاق ہر چیز میں فطرت کی صراط مستقیم سے منحرف ہوگئی اور اب زمین میں اس کا بڑھنا کسی خیر و صلاح کا بڑھنا نہیں بلکہ شر و فساد کا بڑھنا ہے اور جب تک یہ قوم باقی رہے گی اس کے ہاتھوں انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں فساد ہی کو فروغ حاصل ہوگا۔ اس وجہ سے اللہ کے رسول اپنی اصلاح کی دعوت اسی اصل نقطہ سے شروع کرتے ہیں اور یہ چیز انبیاء و رسل کی دعوت کی ایک ایسی خصوصیت ہے کہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی نبی کی دعوت بغیر اس خصوصیت کے پائی جائے۔ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۔ یہ وہ اصل انذار ہے جو حضرت نوح نے اپنی قوم کو سنایا کہ اگر تم شرک سے تائب ہو کر خالص اللہ ہی کی عبادت و اطاعت کی راہ پر نہ آگئے تو بس سمجھ لو کہ تم پر ایک ہولناک دن کا عذاب نازل ہوا ہی چاہتا ہے۔ ہولناک دن سے مراد یہاں دنیوی عذاب کا ہولناک دن ہے۔ اللہ کے رسول دو عذابوں سے ڈراتے ہیں۔ ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ اللہ کے رسول اپنی اپنی قوموں کو دو عذابوں سے ڈراتے ہیں۔ ایک اس عذاب سے جو رسول کی تکذیب کے لازمی نتیجہ کے طور پر دنیا میں آتا ہے اور دوسرے اس عذاب سے جس سے جزا و سزا کے فیصلہ کے دن آخرت میں لازماً دو چار ہونا پڑے گا۔ یہاں قرینہ دلیل ہے کہ عذاب دنیا کی طرف اشارہ ہے۔ اس کو ہولناک دن سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ رسول کی تکذیب کے نتیجے کے طور پر جو عذاب آتا ہے وہ تذکیر و تنبیہ کی نوعیت کا عذاب نہیں ہوتا بلکہ عذاب اس قوم کی جڑ کاٹ دیا کرتا ہے جس کے بعد قومی حیثیت سے اس کا نشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتا ہے۔ سورة شعراء میں حضرت ہود کی زبان سے نقل ہوا ہے انی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم (شعراء :135) پھر ان کی قوم کا جواب اور اس جواب کی پاداش میں ان پر دنیا میں عذاب کا آنا یوں بیان ہوا ہے۔ وما نحن بمعذبین فکذبوہ فاھلکناہم ان فی ذلک لایۃ (اور ہم پر ہرگز عذاب نہیں آئے گا، تو انہوں نے اس کو جھٹلا دیا، پس ہم نے ان کو ہلاک کر چھوڑا اور بیشک اس میں بہت بڑی نشانی ہے)
Top