Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 87
وَ اِنْ كَانَ طَآئِفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآئِفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَا١ۚ وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہے طَآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْكُمْ : تم سے اٰمَنُوْا : جو ایمان لایا بِالَّذِيْٓ : اس چیز پر جو اُرْسِلْتُ : میں بھیجا گیا بِهٖ : جس کے ساتھ وَطَآئِفَةٌ : اور ایک گروہ لَّمْ يُؤْمِنُوْا : ایمان نہیں لایا فَاصْبِرُوْا : تم صبر کرلو حَتّٰي : یہاں تک کہ يَحْكُمَ : فیصلہ کردے اللّٰهُ : اللہ بَيْنَنَا : ہمارے درمیان وَهُوَ : اور وہ خَيْرُ : بہترین الْحٰكِمِيْنَ : فیصلہ کرنے والا
اور جب کہ تم میں سے ایک گروہ اس چیز پر ایمان لایا ہے جو میں دے کر بھیجا گیا ہوں اور ایک گروہ ایمان نہیں لایا ہے تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ فرما دے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے
وَاِنْ كَانَ طَاۗىِٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِيْٓ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَطَاۗىِٕفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰي يَحْكُمَ اللّٰهُ بَيْنَنَا ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحٰكِمِيْنَ۔ اوپر مفسدین کے جس انجام سے ڈرایا ہے یہ اسی سے متعلق ایک شبہ کا ازالہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مفسدین کا یہ انجام تو قطعی اور یقینی ہے، تمہیں جو مہلت مل رہی ہے اس سے یہ نہ سمجھو کہ میری بات جھوٹی ہے۔ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ خدا نے اب تک جو تمہیں مہلت دے رکھی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تم میں سے ایک گروہ میری بات پر ایمان لایا ہے۔ اللہ یہ چاہتا ہے کہ تم میں اور بھی جن کے اندر کچھ صلاحیت ہے وہ چھٹ کر علیحدہ ہوجائیں۔ پس ان کی خاطر تمہیں یہ مہلت مل رہی ہے۔ اس مہلت تک انتظار کرو اس کے بعد خدا ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے گا اور وہ بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے۔ مفسدین کی مہلت کا قانون : یہ حضرت شعیب نے ایک سنت الٰہی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک شکل تو یہ ہوتی ہے کہ قوم کی غالب اکثریت رسول کی دعوت کا انکار کردیتی ہے اور اس انکار پر اڑجاتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ بات جلد واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ قوم ایمان کی صلاحیت سے بالکل خالی ہے۔ پھر اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر اس پر عذاب بھی جلد آجاتا ہے دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ قو کے اندر سے ایک گروہ ایمان لاتا ہے، دوسرا گروہ اس کی مخالفت کرتا ہے۔ یہ صورت اس بات کا رینہ ہوتی ہے کہ اس قوم کے اندر کچھ صلاحیت موجود ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کو مزید بلویا جائے تو اس کے اندر سے کچھ مزید مکھن نکلے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ اپنے بندوں پر غایت درجہ مہربان اور قہر کرنے میں بہت دھیما ہے اس وجہ سے وہ ایسی صورت میں قوم کو مہلت دیتا ہے یہاں تک کہ نبی اور صالحین اپنی پوری قوم کو اپنے چھاج میں اچھی طرح پھٹک لیتے ہیں۔ اس عمل کے پورے ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ اس قوم کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔ اس آیت سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ قوم کو یہ مہلت ان صالحین کی برکت سے ملتی ہے جو اس کے اندر سے رسول کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔ فاصبروا یہاں انتظار کے معنی میں ہے اور خیر الحاکمین میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بہرحال اس کا فیصلہ بالکل حق و عدل پر مبنی ہوگا اور ٹھیک اس وقت ہوگا جب کہ اس کو ہونا چاہیے۔
Top