Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 94
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے فِيْ : میں قَرْيَةٍ : کسی بستی مِّنْ نَّبِيٍّ : کوئی نبی اِلَّآ : مگر اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اَهْلَهَا : وہاں کے لوگ بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَضَّرَّعُوْنَ : عاجزی کریں
اور ہم نے جس بستی میں کوئی رسول بھیجا، اس کے باشندوں کو مالی اور جسمانی مصائب سے آزمایا کہ وہ رجوع کریں۔
آیت 94 تا 102 کا مضمون : اوپر کی تمام سرگزشتیں سنانے سے مقصود قریش کو آگاہ کرنا تھا کہ جس کسوٹی پر یہ قومیں پرکھی گئیں وہی کسوٹی اب تمہارے سامنے ہے اور تم بھی، اگر تم نے اپنے رسول کی تکزیب کردی، وہی انجام دیکھو گے جو انہوں نے دیکھا اس وجہ سے آگے کی آیات میں وہ اصول و ضوابط بھی نگاہوں کے سامنے کردیے ہیں جو مذکورہ بالا تاریخ سے سامنے آتے ہیں تاکہ قریش جو قدم بھی اٹھائیں نتائج سے اچھی طرح آگاہ ہو کر اٹھائیں۔ تفسیر آیت 94۔ 95۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِيٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ۔ ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰي عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاۗءَنَا الضَّرَّاۗءُ وَالسَّرَّاۗءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۔ باساء اور ضراء کا مفہوم : باساء اور ضراء کی تحقیق انعام :42 کے تحت بیان ہوچکی ہے۔ یہ دونوں لفظ جب ایک دوسرے کے بالمقابل استعمال ہوتے ہیں تو پہلے سے مالی آفتیں مراد ہوتی ہیں۔ مثلا قحط، گرانی، کساد بازاری وغیرہ اور دوسرے سے جسمانی آفتیں مثلاً بیماریاں اور وبائیں وغیرہ۔ لیکن جب ضراء کا لفظ سراء کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو یہ دونوں الفاظ ہر قسم کی بد حالی و خوش حالی کو اپنے اندر سمیٹ لیتے ہیں۔ عنا الشیء کثر و طال، فلاں چیز خوب بڑھی، خوب اپجی، عنت الارض، غطاھا النبات، زمین سبزہ اور نباتات سے ڈھک گئی۔ نبی کی منادی توبہ کی بازگشت آفاق میں : یہ اس سنت الٰہی کا بیان ہے جو انبیاء کی بعثت کے ساتھ لازماً ظاہر ہوتی ہے اور ان تمام انبیاء کے زمانوں میں ظاہر ہوئی جن کی سرگزشتیں اوپر بیان ہوئیں۔ وہ سنت یہ ہے کہ جب نبی توبہ و استغفار اور جزا و سزا کی منادی شروع کرتا ہے تو اس کے محرکات و مویدات اس کائنات میں بھی ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔ ایک طرف پیغمبر لوگوں کو غفلت و خدا فراموشی کے انجام، فساد فی الارض کے نتائج اور دنیا اور آخر میں خدا کی پکر سے ڈراتا ہے، دوسری طرف اللہ تعالیٰ لوگوں کو سیلاب، قحط، وبا، طوفان کی آزمائشوں میں بھی مبتلا کرتا ہے تاکہ لوگ آنکھوں سے بھی، اگر ان کے پاس دیدہ عبرت نگاہ ہو، دیکھیں کہ اس طرح اللہ جب چاہے اور جہاں سے چاہے ان کو پکڑ سکتا ہے اور پھر خدا کے سوا کوئی ان کو بچانے والا نہیں بن سکتا۔ اس طرح گویا دعوت کے ساتھ واقعات کی تائید اور عقل و فطرت کی شہادت کے ساتھ مشہادہ کی اثر انگیزی بھی جمع ہوجاتی ہے۔ نبی جو کچھ کہتا ہے، آسمان و زمین دونوں مل کر اپنے اسٹیج پر گویا اس کے مناظر دکھا بھی دیتے ہیں تاکہ جن کے اندر اثر پذیری کی کچھ رمق ہو وہ خدا کے آگے جھکیں اور توبہ و اصلاح کریں۔ آزمائش کی ایک اور کروٹ : جن کے پاس دیکھنے والی آنکھیں اور اثر قبول کرنے والے دل ہوتے ہیں وہ ان آزمائشوں سے فائدہ اٹھاتے اور خدا کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ ان کو گویا نبی کی دعوت کی باز گشت تمام عناصر کائنات سے سنائی دیتی ہے اور وہ صرف کانوں سے سنتے ہی نہیں بلکہ آنکھوں سے دیکھتے بھی ہیں لیکن جن کے دل پتھر اور کان بہرے ہوچکتے ہیں ان کے لیے یہ سنت الٰہی ایک دوسری شکل اختیار کرلیتی ہے۔ وہ یہ کہ پھر اللہ تعالیٰ ان کو ڈھیل دے دیتا ہے۔ بدحالی کی جگہ خوش حالی آجاتی ہے، دنیوی اسباب و وسائل کے کے ہر گوشے میں ترقی و فراخی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، آزمائشوں اور تکلیفوں کے دن ذہنوں سے نکل جاتے ہیں۔ پھر سرکش لوگ چہکنا اور نبی اور اس کے ساتھیوں کا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) یہ عقل کے کوتاہ لوگ، پچھلے قحط یا گزشتہ سیلاب یا فلاں آفت کو ہمارے اعمال و عقائد کی خرابی پر خدا کی تنبیہ سمجھتے تھے اور اپنے وعظوں میں طرح طرح سے ہم کو ڈراتے اور پست ہمت کرتے رہے۔ حالانکہ ان باتوں کو ایمان و اخلاق سے کیا تعلق ؟ اس قسم کی گردشیں قوموں کی زندگی میں آیا ہی کرتی ہیں۔ ایسے دن کچھ ہمارے ہی اوپر تو نہیں گزرے ہیں۔ ہمارے باپ دادوں پر بھی گزرے ہیں جو بڑے اچھے اور نیک نہاد لوگ تھے۔ یہ تو زمانے کے اتفاقات ہیں۔ کبھی تنگی ہے کبھی فراخی، کبھی فصل اچھی ہوئی، کبھی ماری گئی، کبھی سیلاب آگیا، کبھی قحط پڑگیا، ان چیزوں کو اعمال و اخلاق سے باندھ دینا محض خرد باختگی اور وہمی پن ہے۔ جس طرح آفات و مصائب کے ظہور کا مقصد لوگوں کو جھنجھوڑنا اور بیدار کرنا بتایا گیا ہے لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ ، اسی طرح اس امہال اور ڈھیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ ان تنبیہات سے نہیں جاگے ہیں وہ بد مست ہو کر گہری نیند سو جائیں تاکہ خدا کا عذاب ان کو ایسی حالت میں دبوچے کہ ان کو خبر نہ ہو کہ کب آیا اور کہاں سے آیا۔ فاخذناہم بغتۃ وہم لا یشعرون۔ نیک وبد کے لیے مشترک تنبیہی آفتیں : یہ بات یہاں یاد رکھنے کی ہے کہ جو آزمائشیں اور آفتین لوگوں کے اندر توجہ الی اللہ یا قرآن کے الفاط میں تضرع پیدا کرنے کے لیے آتی ہیں وہ عام اور مشترک ہوتی ہیں ان میں نیک و بد دونوں ہی تپائے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال نادانوں اور سرکشوں کے لیے ایک وجہ فتنہ و مغالطہ بن جاتی ہے۔ وہ سمجھ بیتھتے ہیں کہ جب اس قحط یا وبا نے عقیدہ اور عیقدہ، کردار اور کردار میں کوئی فرق نہیں کیا، اس کا نشانہ جس طرح ہم بنے اسی طرح ہمارے ملامت گر اور ناصح بھی بنے تو یہ کس طرح تسلیم کیا جائے کہ اس کا کوئی رشتہ کفر و ایمان اور عقائد اعمال سے ہے، یہ بات تو اس صورت میں صحیح ہوتی جب نبی اس کے ساتھی اس قحط یا آفت سے اس طرح بچا لیے گئے ہوتے کہ ان کے لیے تو آسان سے من وسلوی اترتا ہوتا اور ہم سوکھے چمڑے چابتے ہوتے۔ جب یوں نہیں ہوا بلکہ ہم اور وہ دونوں اپنی اپنی جگہ گرفتار ومصائب رہے توئی جس طرح مانا جائے کہ ان مصائب کا کوئی علاقہ لوگوں کی نیکی وبدی سے ہے۔ درحقیقت یہی مغالطہ ہے جو انبیاء کے مخالفین کی طرح آج کے بد مستوں کو بھی اندھا بنائے ہوئے ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ سائیکلون اٹھا وہ بلا امتیاز نیک و بد سب کو بہا لے گیا۔ زلزلہ آیا اس نے مندر، مسجد، کلیسا سب ڈھا دیے، قحط آیا اور اس کی زند میں نمازی اور غیر نمازی، فاسق اور مومن سب آئے۔ یہ چیز ان کے لیے فتنہ بن جاتی ہے۔ اول تو وہ ان چیزوں سے کوئی صحیح اثر لیتے ہی نہیں اور اگر وقتی طور پر دلوں میں کچھ گداز پیدا ہوتا بھی ہے تو اس کا اثر دیرپا نہیں ہوتا۔ بہت جلد خواہشیں ان کو اسی غفلت و سرمستی میں مبتلا کردیتی ہیں جس میں وہ اب تک مبتلا رہے تھے اور ان کا مرشد شیطان ان کو وہی جاہلی فلسفہ از سر نو پڑھا دیتا ہے جس کا ذکر اوپر گزرا کہ قد مس اباءنا الضراء والسراء اس قسم کے سرد و گرم دن تو قوموں پر آتے ہی رہتے ہیں۔ اس ابلیسی مغالطہ سے محفوظ رہنے کے لیے اس حقیقت کو ہمیشہ مستحضر رکھنا چاہیے کہ تنبیہی مصائب میں اگرچہ ظاہر کے اعتبار سے نیک وہ بد میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا اس لیے کہ ان کا مقصود سزا دینا نہیں۔ بلکہ لوگوں میں تضرع پیدا کرنا ہوتا ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے بڑا فرق ہوتا ہے۔ اہل ایمان اگر ان مصائب میں کوئی حصہ پاتے ہیں تو اس سے ان کے تضرع میں مزید اضافہ ہوتا ہے جس سے ان کو کوتاہیوں کی تلافی اور ان کے مراتب و مدارج میں ترقی ہوتی ہے۔ برعکس اس کے جن لوگوں کے اندر ان سے تضرع پیدا نہیں ہوتا ان پر اللہ کی حجت تمام ہوجاتی ہے اور اس کے بعد جب ان پر فیصلہ کن عذاب آتا ہے تو وہ ان کا استیصال کردیتا ہے۔ پھر اس کی زد سے ان کے اندر کے وہی لوگ بچتے ہیں جو اصلاح منکر کا فرض ادا کرنے والے ہوتے ہیں۔ دو
Top