Tadabbur-e-Quran - Nooh : 13
مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًاۚ
مَا لَكُمْ : کیا ہے تم کو لَا تَرْجُوْنَ : نہیں تم امید رکھتے لِلّٰهِ : اللہ کے لیے وَقَارًا : کس وقار کی
تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی عظمت کے ظہور کے متوقع نہیں ہو !
یہ قوم کے ہٹ دھرموں کی بلادت پر اظہار تعجب ہے کہ میں جو تمہیں اس طرح ٹوٹ ٹوٹ کر استغفار کی دعوت دے رہا ہوں تو آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم کانوں میں تیل ڈالے پڑے ہو اور میری سنی ان سنی کیے دے رہے ہو! کیا تم سمجھتے ہو کہ تم اسی طرح اپنی دلچسپیوں میں مگن رہو گے اور جس رب نے تمہیں یہ سب کچھ دے رکھا ہے اس کا جلال، تمہاری بدمستیوں کے باوجود کبھی ظہور میں نہیں آئے گا! مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے ایسا سمجھ رکھا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہاری نگاہوں میں اس کی عظمت و جلالت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ تم اس کو العیاذ باللہ بالکل بے حس، بے حمیت اور بے بس خیال کیے بیٹھے ہو کہ اس کی دنیا میں جو دھاندلی چاہو مچاتے پھرو لیکن اس کی غیرت و حمیت کبھی جوش میں نہیں آئے گی۔ بعینہٖ یہی مضمون ’مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ‘ (الانفطار ۸۲: ۶) (اے انسان! تجھ کو تیرے رب کریم کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے) والی آیت میں بیان ہوا ہے۔ یعنی انسان جب اپنے دائیں بائیں نعمتوں کے انبار دیکھتا ہے اور یہ بھی دیکھتا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے لیکن اس کی پکڑ نہیں ہو رہی ہے تو وہ آہستہ آہستہ ڈھیٹ ہو کر خدا کی پکڑ سے بالکل نچنت ہو جاتا ہے۔ حالانکہ وہ سونچتا تو آسانی سے سمجھ سکتا تھا کہ خدا نے اس کے لیے اپنی کریمی کی یہ شانیں دکھائی ہیں تو اس لیے نہیں دکھائی ہیں کہ وہ اس کی دنیا میں دھاندلی مچائے بلکہ ان نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے رب کا شکرگزار اور اس امر کا منتظر رہے کہ ایک دن ان نعمتوں کے باب میں اس سے پرسش ہونی ہے اور اس دن ناشکروں اور نافرمانوں کو اس کی پکڑ سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ ’تَرْجُوْنَ‘ کے معنی یہاں منتظر اور متوقع رہنے کے اور ’وقار‘ کے معنی عظمت، شان اور جلال کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ میں جمال کی صفات کے ساتھ جلال کی صفات بھی ہیں جو ان لوگوں کے لیے ظاہر ہوتی ہیں جو اس کے رسولوں کی نافرمانی کرتے اور اس کے آگے اکڑتے ہیں۔ صراط مستقیم پر استوار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان ان دونوں ہی قسموں کی صفات کی یادداشت تازہ رکھے۔ اگر ان میں عدم توازن پیدا ہو جائے تو آدمی کا ذہن صفات الٰہی کے باب میں غیر متوازن ہو جاتا ہے جس سے اس کی ساری زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ یہاں خطاب چونکہ سرکشوں سے ہے اس وجہ سے صرف صفت جلال ہی کا حوالہ دیا ہے۔
Top