Tadabbur-e-Quran - Nooh : 19
وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًاۙ
وَاللّٰهُ : اور اللہ نے جَعَلَ لَكُمُ : بنایا تمہارے لیے الْاَرْضَ : زمین کو بِسَاطًا : بچھونا
بےروک اور اللہ ہی نے تمہارے لیے زمین کو ہموار بنایا
زمین بجائے خود ایک عظیم نشانی ہے: ’وَاللہُ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا ۵ لِتَسْلُکُوْا مِنْہَا سُبُلاً فِجَاجًا‘۔ اب یہ خود زمین کی نشانی کی طرف توجہ دلائی جس سے اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت و حکمت کا بھی اظہار ہوتا ہے اور اس کی بے نہایت رحمت و عنایت کا بھی۔ فرمایا کہ ہم نے تمہارے لیے زمین کو ایک فرش کی طرح بچھایا۔ اس کو متوازن اور پابرجا رکھنے کے لیے اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دی ہیں اور پہاڑوں کے اندر درے اور راستے نکال دیے ہیں تاکہ تم پہاڑوں کی دیواروں کے پیچھے محصور ہو کے نہ رہ جاؤ بلکہ دروں سے گزر کر ایک جگہ سے دوسری جگہ آ جا سکو۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ زمین کے گہوارہ یا فرش بننے کے لیے اس کے اندر توازن کا پایا جانا لازمی ہے چنانچہ قرآن میں یہ تصریح ہے کہ اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے پہاڑ اسی لیے گاڑے ہیں کہ اس کا توازن قائم رہے۔ ’اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ‘ (النحل ۱۶: ۱۵) اور ’أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِہَادًا ۵ وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا‘ (النبا ۷۸: ۶-۷) اور اس مضمون کی دوسری آیات میں اسی اہتمام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ پھر مزید عنایت اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی کہ پہاڑ گاڑے تو اس طرح کہ ان کے اندر درے اور راستے بھی رکھے تاکہ انسان کے لیے آمد و شد کی راہیں کھلی رہیں۔ آیت میں لفظ ’فِجَاجٌ‘ استعمال ہوا ہے جو ’فَجٌّ‘ کی جمع ہے۔ یہ لفظ عام راستوں کے لیے نہیں بلکہ پہاڑی دروں اور راستوں کے لیے آتا ہے۔ سورۂ حج میں ’فَجٌّ عَمِیْقٌ‘ کے تحت اس کی وضاحت ہو چکی ہے۔
Top