Tadabbur-e-Quran - Nooh : 23
وَ قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا١ۙ۬ وَّ لَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَ نَسْرًاۚ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَا تَذَرُنَّ : نہ تم چھوڑو اٰلِهَتَكُمْ : اپنے ا لہوں کو وَلَا : اور نہ تَذَرُنَّ : تم چھوڑو وَدًّا : ود کو وَّلَا سُوَاعًا : اور نہ سواع کو وَّلَا يَغُوْثَ : اور نہ یغوث کو وَيَعُوْقَ : اور نہ یعوق کو وَنَسْرًا : اور نہ نسر کو
اور کہا کہ ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو اور ہرگز نہ چھوڑدو کو اور نہ سواع کو اور نہ یغوث، یعوق اور نسر کو
اوپر آیت 7 میں قوم کے لیڈروں کی جس ضد اور ہٹ دھرمی کی طرف اشارہ ہے یہ اس کی تفصیل ہے کہ میری دعوت توحید کے خلاف انھوں نے اپنی قوم کے عوام کو بھڑکایا کہ اس شخص کے کہنے سے اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑو۔ قوم نوح کے بتوں کی سخت جانی: ’وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوۡثَ وَیَعُوۡقَ وَنَسْرًا‘۔ یہ ان کے خاص خاص بڑے بتوں کے نام ہیں۔ ان کی خدائی کا سکہ ان کے عوام کے دلوں پر جما ہوا تھا اس وجہ سے ان کے نام لے کر انھوں نے عوام کو للکارا کہ اپنے ان بزرگ دیوتاؤں پر مضبوطی سے جمے رہو۔ اگر تم ذرا کمزور پڑتے تو تمہارا دین آبائی خطرے میں پڑ جائے گا۔ ان بتوں کے ناموں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ عربی نام ہیں۔ قوم نوح کا مسکن شمالی حجاز تھا اس وجہ سے اس کی زبان کا عربی ہونا بعید نہیں۔ ان بتوں کی سخت جانی قابل داد ہے کہ طوفان نے قوم نوح کے ایک ایک نقش کو مٹا دیا لیکن ان بتوں کی خدائی پھر بھی باقی رہی۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں مختلف قبائل عرب میں ان بتوں کی پرستش پھر رائج ہو گئی۔ چنانچہ وَدّ قبیلہ قضاعہ کی شاخ بَنی کَلب کا بت تھا۔ سُواع کی پرستش قبیلہ ہُذَیل کرتا تھا۔ یَغوث قبیلہ طے کی بعض شاخوں کا بُت تھا۔ یَعُوق قبیلۂ ہمدان کی ایک شاخ کا دیوتا تھا۔ نَسر قبیلہ حِمْیَر کی ایک شاخ میں پجتا تھا۔ یہاں ان بتوں کا ذکر جس ترتیب سے آیا ہے اس سے گمان ہوتا ہے کہ قوم نوح میں ان کے مراتب کی ترتیب یہی تھی۔ یعنی ودّ اور سُواع کا مرتبہ سب سے اونچا تھا اور یَغوث، یعوق اور نسر مرتبہ میں ان سے نیچے تھے۔
Top