Tadabbur-e-Quran - Nooh : 25
مِمَّا خَطِیْٓئٰتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا١ۙ۬ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا
مِمَّا : مگر گمراہی میں خَطِيْٓئٰتِهِمْ : خطائیں تھیں ان کی اُغْرِقُوْا : وہ غرق کیے گئے فَاُدْخِلُوْا : پھر فورا داخل کیے گئے نَارًا : آگ میں فَلَمْ : پھر نہ يَجِدُوْا : انہوں نے پایا لَهُمْ : اپنے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ کے اَنْصَارًا : کوئی مددگار
وہ اپنے گناہوں کی پاداش ہی میں غرق کیے گئے پانی میں، پھر داخل کیے گئے آگ میں، پس اللہ کے مقابل میں انہوں نے کسی کو اپنا مددگار نہیں پایا
دعا کی فوری قبولیت: یہ آیت حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کا حصہ نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی دعا کے پہلے ہی فقرے کے بعد اس طرح کی ایک تضمین ہے جس طرح کی تضمین اوپر گزر چکی ہے۔ اس کے لانے سے مقصود یہ دکھانا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعا بالکل صحیح وقت پر، ایک صحیح مقصد کے لیے تھی اس وجہ سے پہلا فقرہ زبان سے نکلتے ہی پوری دعا قبول ہو گئی۔ اگر یہ بشارت حضرت نوحؑ کی دعا کے آخر میں رکھی جاتی تو اس کی فوری قبولیت کا پہلو نمایاں نہ ہوتا اس وجہ سے اس کو دعا کے پہلے ہی فقرے کے بعد رکھ دیا۔ اس قسم کی تضمین کی متعدد مثالیں پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہیں۔ ’مِمَّا خَطِیْئٰاتِہِمْ أُغْرِقُوۡا فَأُدْخِلُوۡا نَارًا‘۔ فرمایا کہ یہ لوگ اپنے جرائم کے سبب سے پانی میں غرق اور آگ میں داخل کیے گئے۔ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ ان کو پانی اور آگ دونوں کے عذاب سے سابقہ پیش آیا۔ اس دنیا میں وہ پانی میں ڈوبے اور آخرت میں دوزخ کی آگ میں پڑیں گے۔ ’فَلَمْ یَجِدُوۡا لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ أَنصَارًا‘۔ یعنی جب ان کو عذاب سے ڈرایا جاتا تو وہ اپنی قوت و جمعیت اور اپنے مزعومہ دیوتاؤں کے بل پر اکڑتے لیکن جب اللہ کا عذاب آ دھمکا تو اس کے مقابل میں کوئی بھی ان کی مدد کرنے والا نہ اٹھا۔
Top