Tadabbur-e-Quran - Al-Insaan : 2
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ١ۖۗ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّا خَلَقْنَا : بیشک ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے اَمْشَاجٍ ڰ : مخلوط نَّبْتَلِيْهِ : ہم اسے آزمائیں فَجَعَلْنٰهُ : توہم نے اسے بنایا سَمِيْعًۢا : سنتا بَصِيْرًا : دیکھتا
ہم نے انسان کو پیدا کیا پانی کی ایک مخلوط بوند سے۔ اس کو الٹتے پلٹتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اس کو دیکھنے سننے والا بنا دیا۔
انسان کو مزید غور کی دعوت: اوپر کی آیت میں انسان کے اس تاریک ماضی کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو زندگی کے نقطۂ آغاز سے تعلق رکھتا ہے۔ اب یہ اس کی پیدائش کے ان مختلف اطوار کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن کا ہر پہلو اس کے سامنے ہے اور جو اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جس کی طرف اوپر والی آیت اشارہ کر رہی ہے کہ انسان پانی کی ایک بوند سے پیدا ہوتا ہے، اسی بوند کو مختلف اطوار و مراحل سے گزار کر قدرت اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ سننے سمجھنے اور عقل و ہوش رکھنے والے انسان کی شکل اختیار کر لیتی ہے؛ انسان غور کرے کہ جس خدا نے پانی کی ایک بوند پر اتنے عجیب کرشمے دکھائے ہیں کیا اس کے لیے اس کو دوبارہ پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا اور پھر اس بات پر بھی غور کرے کہ جس خدائے علیم و حکیم نے پانی کے ایک حقیر قطرے کو سمع و بصر کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا اور اس کو خیر و شر اور شکر و کفر میں امتیاز بخشا، کیا اس نے یہ ایک کارعبث کیا ہے کہ وہ بازپرس اور جزا و سزا کا کوئی دن نہیں لائے گا۔ ’مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ‘ میں لفظ ’امشاج‘ جمع ہے ’مشج‘ اور ’مشیج‘ کی۔ اس کے معنی ملی جلی اور مخلوط چیز کے ہیں۔ ’امشاج‘ اگرچہ جمع ہے لیکن یہ ان الفاظ میں سے ہے جو جمع ہونے کے باوصف مفرد الفاظ کی صفت کے طور پر آتے ہیں۔ نطفہ کے مخلوط ہونے سے اس کا مختلف قویٰ و عناصر سے مرکب ہونا بھی مراد ہو سکتا ہے اور مرد و عورت کے نطفوں کا امتزاج بھی۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ جہاں مختلف عناصر اور متضاد طبائع اور مزاجوں کا امتزاج ہو وہاں ان کے اندر ایسا اعتدال و توازن برقرار رکھنا کہ پیش نظر مقصد کے مطابق صالح نتیجہ برآمد ہو بغیر اس کے ممکن نہیں کہ یہ کام ایک حکیم و قدیر کی نگرانی میں ہو۔ کسی اتفاقی حادثہ کے طور پر اس طرح کے حکیمانہ کام کا وقوع ممکن نہیں ہے۔ لفظ ’ابتلاء‘ کا مفہوم: ’نَبْتَلِیْہِ‘ کو عام طور پر لوگوں نے بیان علت کے مفہوم میں لیا ہے۔ یعنی ہم نے انسان کو آزمانے کے لیے پیدا کیا۔ لیکن یہ علت کے مفہوم میں ہوتا تو اس پر لام علت آنا تھا حالانکہ یہ حال کی صورت میں ہے اور حال کا مفہوم علت کے مفہوم سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ حال ہی کے مفہوم میں ہے اور مطلب اس کا یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اس طرح پیدا کیا کہ درجہ بدرجہ اس کو مختلف اطوار و مراحل سے گزارتے ہوئے ایک سمیع و بصیر مخلوق کے درجے تک پہنچا دیا۔ ’ابتلاء‘ کے معنی لغت میں جانچنے پرکھنے کے ہیں۔ آدمی جب کسی چیز کو جانچتا ہے تو اس کو مختلف پہلوؤں سے الٹ پلٹ اور ٹھونک بجا کر دیکھتا ہے۔ یہیں سے اس کے اندر ایک طور سے گزار کر دوسرے طور میں لے جانے کا مفہوم بھی پیدا ہو گیا۔ یہاں یہ لفظ اسی معنی میں ہے۔ اصحاب تاویل میں سے بھی بعض لوگوں نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ انسان کی خلقت کے مختلف مراحل: انسان کی تخلیق جن اطوار و مراحل سے گزر کر مرتبہ تکمیل تک پہنچی ہے ان کی وضاحت قرآن میں جگہ جگہ ہوئی ہے۔ ہم بعض مثالیں پیش کرتے ہیں: یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنۡ کُنْتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاکُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَغَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ وَنُقِرُّ فِی الْأَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰی أَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوۡا أَشُدَّکُمْ (الحج ۲۲: ۵) ’’اے لوگو، اگر تم مرنے کے بعد اٹھائے جانے کے باب میں شک میں ہو تو اس بات پر غور کرو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر پانی کی ایک بوند سے پھر خون کی ایک پھٹکی سے پھر گوشت کی ایک بوٹی سے، کوئی تمام اور کوئی ناتمام، تاکہ ہم تم پر اپنی قدرت و حکمت اچھی طرح ظاہر کر دیں۔ پھر ہم رحموں میں ٹھہراتے ہیں جتنا چاہتے ہیں ایک مدت معین تک پھر ہم تم کو بچے کی صورت میں باہر لاتے ہیں پھر ہم تم کو پروان چڑھاتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔‘‘ انہی اطوار و مراحل کی تفصیل سورۂ مومنون میں یوں آئی ہے: وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ۵ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ۵ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ (المومنون ۲۳: ۱۲-۱۴) ’’اور ہم نے انسان کو پیدا کیا مٹی کے جوہر سے پھر ہم نے اس کو رکھا پانی کی ایک بوند کی صورت میں ایک محفوظ ٹھکانے میں۔ پھر ہم نے پانی کی اس بوند کو خون کی پھٹکی کی شکل دی پھر خون کی پھٹکی کو مضغۂ گوشت بنایا پھر گوشت میں ہڈیاں پیدا کیں اور ہڈیوں کو گوشت کا جامہ پہنایا پھر اس کو ایک بالکل ہی دوسری مخلوق کی صورت میں لا کھڑا کر دیا۔ پس بڑی ہی بابرکت ذات ہے اللہ، بہترین پیدا کرنے والے، کی۔‘‘ ان آیات میں جن اطوار و مراحل کی تفصیل ہے انہی کی طرف بالاجمال آیت زیربحث میں اشارہ فرمایا ہے اور انہی مراحل سے درجہ بدرجہ گزارنے کے لیے لفظ ’نَبْتَلِیْہِ‘ آیا ہے جس سے یہ بات نکلی کہ اس قطرے کو گہر ہونے تک بہت سے مرحلے طے کرنے پڑے ہیں اور ہر مرحلہ میں قدرت نے اس کو اچھی طرح جانچا پرکھا ہے کہ جس دور میں جو صلاحیت اس کے اندر پیدا ہونی چاہیے وہ پیدا ہو گئی یا نہیں! ’فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا‘ یہ اس تمام اہتمام و تدبر کا خلاصہ سامنے رکھا ہے کہ یا تو انسان پانی، مٹی، کیچڑ اور نطفہ کی شکل میں بالکل ’لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا‘ (ناقابل ذکر چیز) کا مصداق تھا یا وہ دور آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو سمع و بصر کی اعلیٰ صفات سے متصف ہستی بنا دیا۔ سورۂ مومنون کی محولہ بالا آیت میں اسی چیز کی طرف ’ثُمَّ أَنشَأْنَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ‘ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔ ’سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ‘۔ انسان کی تمام اعلیٰ صفات کی نہایت جامع تعبیر ہے۔ انہی صفات کے فیض سے انسان کے اندر خیر و شر میں امتیاز کی صلاحیت پیدا ہوئی اور وہ اس قابل ٹھہرا کہ اللہ تعالیٰ اس کا امتحان کرے کہ وہ خیر کی راہ اختیار کر کے اپنے رب کا شکرگزار بندہ بنتا ہے یا شر کی راہ اختیار کر کے ناشکرا اور کافر نعمت بن جاتا ہے۔ پھر اس سے لازماً یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جو اپنے سمع و بصر کی صلاحیتوں کی قدر کریں وہ اس کا صلہ پائیں اور جو ان کی ناقدری کریں وہ اس کی سزا بھگتیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس سارے اہتمام کا مقصد کیا جو انسان کی پیدائش کے لیے قدرت نے کیا!؎
Top