Tadabbur-e-Quran - Al-Insaan : 7
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا
يُوْفُوْنَ : وہ پوری کرتے ہیں بِالنَّذْرِ : (اپنی) نذریں وَيَخَافُوْنَ : اور وہ ڈر گئے يَوْمًا : اس دن سے كَانَ : ہوگی شَرُّهٗ : اس کی بُرائی مُسْتَطِيْرًا : پھیلی ہوئی
یہ اپنی نذریں پوری کرتے اور اس دن سے ڈرتے رہے ہیں جس کا ہول ہمہ گیر ہوگا
ابرار کے وہ اعمال جن کے صلہ میں ان کو یہ سرفرازی حاصل ہو گی: یہ ان کے وہ اوصاف و اعمال بیان ہو رہے ہیں جن کے سبب سے ان کو رب کریم کی طرف سے یہ سرفرازی بخشی جائے گی۔ کوئی نیک کام کرنے کا عہد کر لینے کو ’نذر‘ کہتے ہیں۔ ان وفادار بندوں (ابرار) کے اوصاف میں ایفائے نذر کو خاص طور پر نمایاں کیا گیا ہے۔ جو لوگ ان نذروں کے پورے کرنے کا بھی اہتمام رکھیں گے جو انھوں نے بطور خود اپنے اوپر واجب کی ہوں ان سے نیکیوں کے بدرجۂ اولیٰ اہتمام کی توقع ہے جو ان کے رب نے ان پر واجب ٹھہرائی ہیں۔ ہمارے مفسرین نے اس لفظ کے مفہوم کو وسیع کر کے تمام نیکیوں پر حاوی کر دیا ہے، خواہ بندے نے اپنے اوپر وہ ازخود عائد کی ہوں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کی گئی ہوں۔ لیکن یہ اس لفظ کے حقیقی مفہوم سے تجاوز ہے۔ اسلام سے پہلے نذر کی اہمیت: یہاں یہ امر یاد رکھیے کہ ’نذر‘ کی اہمیت سابق ادیان میں بھی بہت رہی ہے اور عرب جاہلیت میں بھی اس کا بڑا اہتمام تھا۔ جو لوگ کوئی نیکی کا کام کرنا چاہتے، خواہ وہ حج و عمرہ کے قسم کی ہو یا قربانی و انفاق کے نوع کی، وہ اس کی نذر مانتے اور اہتمام سے اپنی نذر پوری کرتے۔ عربوں کے اندر اس کی وجہ زیادہ تر ان کی امیت تھی۔ دین کے طریقے ان کو واضح طور پر معلوم نہیں تھے اس وجہ سے ان کے اندر کے نیک لوگ نذروں کے ذریعہ سے اس خلا کو بھرتے۔ اسلام کے آ جانے کے بعد جب شریعت کے تمام اصول و فروع لوگوں کو معلوم ہو گئے تو اس کا دائرہ محدود ہو گیا۔ وہ نذریں جو مشرکانہ نوعیت کی تھیں وہ تو بالکل ختم کر دی گئیں۔ جو نذریں تکلیف مالایطاق نوعیت کی تھیں وہ بھی یا تو ممنوع قرار پا گئیں یا ان کی اصلاح کر دی گئی۔ یہ سورہ چونکہ اس دور کی ہے جب شریعت کے احکام و آداب لوگوں کو تفصیل سے معلوم نہیں ہوئے تھے اس وجہ سے اس میں اس کا ذکر خاص اہمیت سے ہوا۔ بعد میں جب شریعت کا پورا میثاق نازل ہو گیا تو اس کا دائرہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، نہایت محدود ہو گیا۔ خوف آخرت: ’وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہُ مُسْتَطِیْرًا‘۔ ’مُسْتَطِیْرٌ‘ کے معنی عام اور ہمہ گیر کے ہیں۔ یہ ان کے اندیشۂ آخرت کا بیان ہے کہ وہ ہمیشہ اس دن کی پکڑ سے ڈرتے رہے ہیں جس کی آفت عام و ہمہ گیر ہو گی۔ یعنی اس دن بڑے اور چھوٹے، امیر اور غریب، راعی اور رعایا یہاں تک کہ عابد اور معبود سب کو اس کے ہول سے سابقہ پیش آئے گا۔ صرف وہی لوگ اس سے محفوظ رہیں گے جن کو اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔
Top