Tadabbur-e-Quran - An-Naba : 3
الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ مُخْتَلِفُوْنَؕ
الَّذِيْ : وہ جو هُمْ فِيْهِ : وہ اس میں مُخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کر رہے ہیں
جس میں کوئی کچھ کہہ رہا ہے کوئی کچھ !
منکرین قیامت کا تناقض فکر: ’اَلَّذِیْ ہُمْ فِیْہِ مُخْتَلِفُوۡنَ‘۔ لفظ ’اختلاف‘ بیک وقت دو معنوں کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک اختلاف رائے کو دوسرے تناقض فکر کو اور یہ دونوں معانی غور کیجیے تو معلوم ہو گا لازم و ملزوم ہیں۔ اختلاف رائے تناقض فکر ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ مشرکین عرب سے متعلق ہم جگہ جگہ اس حقیقت کا اظہار کر چکے ہیں کہ قیامت کے باب میں وہ نہایت شدید قسم کے تناقض فکر میں مبتلا تھے۔؂۱ ایک گروہ ان کے اندر اس کا کھلم کھلا انکار کرتا تھا اور دوسرا، جس کی تعداد زیادہ تھی، صریح انکار کے بجائے اس پر مختلف قسم کے شبہات وارد کرتا تھا۔ ان کا گمان تھا کہ اول تو اس کا ہونا ہی بہت مستبعد اور بعید از قیاس ہے اور ہوئی بھی تو اس کے لیے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا ٹوٹنا ہمارے دیوتاؤں کی طرف ہو گا جو ہمیں خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے اور اگر خدا سے سابقہ پڑا بھی تو اتنی بے شمار مخلوق کے سارے اعمال و اقوال کو کون جان سکتا ہے کہ وہ ان کا حساب کرنے بیٹھے۔ یہ اس خبط میں بھی مبتلا تھے کہ جب اس دنیا میں ان کا حال اچھا ہے، جو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا کی نظروں میں اچھے ہیں، تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ جو عزت و سرفرازی اس نے ان کو اس دنیا میں دے رکھی ہے قیامت میں ان کو اس سے محروم کر دے۔ ان غلط خیالات کے ساتھ ساتھ وہ بہت سے ایسے صحیح عقائد کا اقرار بھی کرتے تھے جن سے ان باطل خیالات کی نفی ہوتی تھی لیکن قیامت اور جزا و سزا کو ماننا ان کی خواہش کے خلاف تھا اس وجہ سے وہ قرآن کی بار بار کی تذکیر کے بعد بھی اپنے فکری تناقض کا جائزہ لینے اور اس کو دور کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے حالانکہ عقل اور فطرت کا یہ بدیہی تقاضا ہے کہ انسان کو زندگی کے کسی ایسے معاملے میں اگر ذہنی یکسوئی حاصل نہ ہو جس میں اس کی ابدی فلاح یا ابدی ہلاکت کا راز مضمر ہے تو ان لوگوں کی بات توجہ سے سنے جو اس کے تضاد فکر سے اس کو آگاہ کر رہے ہوں تاکہ ہلاکت سے محفوظ رہے۔ یہ درحقیقت اس کی اپنی ضرورت ہے نہ کہ یاددہانی کرنے والوں کی۔ قرآن نے یہاں اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قرآن ان کو جس عظیم واقعہ کی خبر دے رہا ہے اس کے بارے میں ان کا فکری تناقض اور کسی ذہنی الجھن میں مبتلا رہنا کسی طرح ان کے لیے خوش انجام نہیں ہے۔ یہ ابدی ہلاکت یا ابدی سعادت کا معاملہ ہے۔ قرآن کا یہ بڑا احسان ہے کہ اس نے اس تضاد و اختلاف سے نکلنے کی ان کو راہ دکھائی ہے۔ حق تھا کہ وہ اس کی قدر کرتے لیکن انھوں نے اپنی بدبختی سے اس کو تفریح طبع کا موضوع بنا لیا ہے۔ _____ ؂۱ مثلاً ملاحظہ ہو تفسیر سورۂ نمل (۲۷) آیت ۶۶۔
Top