Tadabbur-e-Quran - An-Naba : 6
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًاۙ
اَ لَمْ : کیا نہیں نَجْعَلِ : ہم نے بنایا الْاَرْضَ : زمین کو مِهٰدًا : فرش
کیا ہم نے زمین کو گہوارہ
آثار ربوبیت سے استدلال: ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے ان آثار کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس کی قدرت، حکمت، رحمت، ربوبیت، توحید، قیامت اور ایک روز جزا و سزا کے لازمی ہونے پر ایسی واضح حجت ہیں کہ کوئی سلیم الفطرت ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ آخر میں یہ نتیجہ سامنے رکھ دیا ہے کہ ’اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا‘ جو شخص بھی ان نشانیوں پر غور کرے گا وہ اس اعتراف پر مجبور ہو گا کہ اس کے بعد ایک فیصلہ کا دن ضرور آئے گا اور اس کا وقت اس کائنات کے خالق کے نزدیک معین ہے۔ ’اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا‘۔ سب سے پہلے زمین اور اس کے پہاڑوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انسان اگر روز جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے تو کیا وہ ربوبیت کے اس اہتمام پر غور نہیں کرتا جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے، بغیر کسی استحقاق کے، کر رکھا ہے کہ زمین کو اس کے لیے گہوارے کی طرح قرار و سکون کی جگہ بنایا ہے اور اس میں پہاڑوں کی میخیں ٹھونکی ہیں تاکہ یہ اپنی جگہ پر برقرار رہے، کوئی تزلزل اس میں نہ پیدا ہونے پائے۔ زمین کے اندر پہاڑوں کے لنگرانداز کرنے کی مختلف حکمتوں کی طرف قرآن نے جگہ جگہ اشارے کیے ہیں۔ سابق سورہ میں بھی اس کی ایک عظیم مصلحت کی طرف اشارہ ہے۔ بعض مقامات میں اس کی یہ حکمت بھی بتائی ہے کہ زمین میں پہاڑ اس لیے گاڑے کہ وہ تمہارے سمیت کسی طرف لڑھک نہ جائے۔ ’وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ‘ (النحل ۱۶: ۱۵) (اور زمین میں اس نے پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے کہ مبادا وہ تمہارے سمیت لڑھک جائے)۔ یہاں اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان اگر غور کرے تو یہ سمجھنے سے وہ قاصر نہیں رہے گا کہ جو رب اس زمین کے گہوارے میں اس اہتمام سے اس کی پرورش کر رہا ہے کس طرح ممکن ہے کہ وہ ایک ایسا دن نہ لائے جس میں ان لوگوں کو انعام دے جنھوں نے اس کی ربوبیت کا حق پہچانا اور اس کو ادا کیا ہو اور ان لوگوں کو سزا دے جنھوں نے اس کی ناشکری اور نافرمانی کی ہو۔ ربوبیت کے ساتھ مسؤلیت لازمی ہے۔ ایسا نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس کائنات کے خالق کے نزدیک شکرگزار اور نابکار دونوں برابر ہیں۔ یہ ایسی بھونڈی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ سے متعلق اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
Top