Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 10
وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰى وَ لِتَطْمَئِنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ١ۚ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں جَعَلَهُ : بنایا اسے اللّٰهُ : اللہ اِلَّا : مگر بُشْرٰي : خوشخبری وَلِتَطْمَئِنَّ : تاکہ مطمئن ہوں بِهٖ : اس سے قُلُوْبُكُمْ : تمہارے دل وَمَا : اور نہیں النَّصْرُ : مدد اِلَّا : مگر مِنْ : سے عِنْدِ اللّٰهِ : اللہ کے پاس اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور یہ صرف اس لیے کیا کہ تمہارے لیے خوش خبری ہو اور اس سے تمہارے دل مطمئن ہوں اور مدد تو خدا ہی کے پاس سے آتی ہے بے اللہ عزیز و حکیم ہے
وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰي وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ۔ ضمیر مفعول کا مرجع وہی وعدہ نصرت ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ اس موقع پر تمہارے رب نے یہ صریح الفاظ میں تمہاری مدد کا پہلے سے جو وعدہ فرمایا تو محض اس لیے کہ تم ہراساں تھے، تمہاری ڈھارس بندھ جائے اور تمہارے دل مطمئن ہوجائیں۔ اس سے یہ نہ سمجھنا کہ خدا کی یہ مدد اسی موقع کے ساتھ مخصوص ہے بلکہ جب بھی اللہ کے مومن بندے اس کی راہ میں جہاد کے لیے نکلیں گے اور ایمان و اخلاص کے ساتھ اس سے طالب مدد ہوں گے، وہ ان کی مدد فرمائے گا خواہ اس مدد کے لیے پہلے سے ان کو بشارت ملی ہو یا نہ ملی ہو۔ اس وضاحت کی ضرورت اس وجہ سے تھی کہ صریح الفاظ میں برسر موقع وعدہ نصرت تو نبی کے ذریعہ ہی سے اور اس کی موجودگی ہی میں ہوسکتا ہے تو نبی کی غیر موجودگی میں یا اس کے زمانہ کے بعد کے لوگ کس طرح اطمینان قلب حاصل کرسکتے تھے۔ اس شبہ کے ازالے کے لیے یہ فرما دیا کہ یہ وعدہ اسی موقع کے لیے نہیں تھا بلکہ اہل ایمان کے لیے ایدی ہے۔ rnۭوَمَا النَّصْرُ اِلَّامِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۔ اس لیے کہ مدد تو جب بھی آتی ہے یا آئے گی اللہ ہی کے پاس سے۔ پس خدا پر بھروسہ کرنے والے ہمیشہ خدا پر بھروسہ کریں وہ ہمیشہ ان کی مدد فرمائے گا۔ خدا عزیزی اور غالب ہے، کسی کی مجال نہیں کہ اس کے ہاتھ پکڑ سکے لیکن ساتھ ہی وہ حکیم بھی ہے اس وجہ سے اگر کبھی اہل ایمان کو کوئی افتاد پیش آجائے تو اس میں بھی کوئی حکمت کار فرما اور اس کی تہ میں بھی بندوں ہی کی کوئی مصلحت مضمر ہوتی ہے۔ یہ مضمون سورة آل عمران میں احد کی شکست کے اسباب کے ذیل میں تفصیل سے بیان ہوچکا ہے۔ اس زمانے کے بعض کم سوادوں نے اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا کہ فرشتوں کی فوج اتارنے کا وعدہ محض مسلمانوں کو ذرا بڑھاوا دینے کے لیے تھا تاکہ وہ ہمت کر کے کفار سے بھڑ جائیں۔ ان کے خیال میں قرآن نے جنگ کے بعد خود یہ راز کھول دیا کہ یہ بات محض تمہاری تسلی کے لیے کہہ دی گئی تھی، اس کی حقیقت کچھ نہیں تھی۔ گویا نعوذ باللہ پہلے تو اللہ میاں نے مسلمانوں کو چکمہ دیا اور پھر خود ہی اپنا بھانڈا پھوڑ دیا کہ اب کے تو میں نے تم کو چکمہ دے کر لڑا دیا، آئندہ میرے بھرّے میں نہ آنا، فرشتوں ورشتوں کی بات محض ایک بڑ ہی تھیں۔ شاید یہ حضرات اللہ میاں کو اپنے برابر بھی عقلمند نہیں سمجھتے تھے۔
Top