Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 18
ذٰلِكُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُوْهِنُ كَیْدِ الْكٰفِرِیْنَ
ذٰلِكُمْ : یہ تو ہوا وَاَنَّ : یہ کہ اللّٰهَ : اللہ مُوْهِنُ : سست کرنیوالا كَيْدِ : مکر۔ داؤ الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
یہ جو کچھ ہوا سامنے ہے اور اللہ کافروں کے سارے داؤں کو بےکار کر کے رہے گا
ذٰلِكُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ مُوْهِنُ كَيْدِ الْكٰفِرِيْنَ۔ ذالکم جب اس طرح آتا ہے تو یہ پورے جملے کا قائم مقام ہوتا ہے اور اس کے بعد جو حرف ربط آتا ہے اس کا تعلق اس مخفی مضمون سے ہوتا ہے جو اس کے اندر مضمر ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ خدا کی تائید و نصرت کی یہ شانیں جو ظاہر ہوئیں یہ تمہارے لیے نقد ہیں اور مزید براں یہ ہے کہ خدا کفار کی ساری چالیں جو وہ تمہارے خلاف چلیں گے بودی ثابت کرتا رہے گا۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ جملہ ٹھیک ٹھیک اوپر کے جملے ذالکم فذوقوہ وان للکفرین عذاب النار کا مد مقابل جملہ ہے یعنی کفار کے لیے یہ چپت نقد ہے جو ان کو بدر میں لگی اور تمہارے لیے یہ فتح عظیم نقد ہے تو تہیں حاصل ہوئی اب آگے ان کے لیے دوزخ ہے اور تمہارے لیے یہ بشارت کہ کفار کی سازشوں کے تمام تار و پود بکھر جائیں گے اور دین حق کا بول بالا ہوگا۔ جنگ بدر کفار کی ایک سازش تھی : کید الکفرین کے الفاظ سے وہ بات صاف نکلتی ہے جس کی طرف ہم نے پیچھے اشارہ کیا ہے کہ یہ جنگ قریش کے لیڈروں کی سازش کا نتیجہ تھی۔ انہوں قافہ تجارت کی حفاظت کا بہانہ تراش کر مسلمانوں پر حملہ کردیا لیکن اللہ تعالیٰ نے، جیسا کہ آگے آیت 42 کے تحت واضح ہوگا، بروقت پیغمبر ﷺ کو اس سازش سے باخبر کردیا اور مسلمان مدافعت کے لیے تیار ہوگئے۔ اس وجہ سے قرآن نے اس کو کید کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے جس کے معنی چال اور سازش کے ہیں۔ آگے آیت 48 سے انشاء اللہ یہ بات بھی ثابت ہوجائے گی کہ اس سازش میں یہود بھی شریک تھے۔ اجزا کی وضاحت کے بعد آیت کے سیاق وسباق پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ اوپر کی آیات میں مسلمانوں کو جس جان بازی و سرفروشی کی دعوت دی گئی ہے یہ اسی کی دلیل بیان ہوئی ہے کہ تم کیوں جان چراؤ اور کیوں پیٹھ دکھاؤ جب کہ تم نہیں لڑتے بلکہ تمہاری طرف سے خدا لڑتا ہے۔ لڑتا در اصل خدا ہے البتہ وہ تمہارے لیے میدان فراہم کرتا ہے کہ تمہارے جوہر نمایاں ہوں اور تم دین و دنیا دونوں کی سرفرازی حاصل کرو۔
Top