Tadabbur-e-Quran - Al-Anfaal : 20
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اَطِيْعُوا : حکم مانو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَلَا تَوَلَّوْا : اور مت پھرو عَنْهُ : اس سے وَاَنْتُمْ : اور جبکہ تم تَسْمَعُوْنَ : سنتے ہو
اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس سے روگردانی نہ کرو جب کہ تم سن رہے ہو
آیات 20 تا 28 کا مضمون : مسلمانوں کی تربیت و اصلاح اور تطہیر و تنظیم کا وہی مضمون جو اوپر سے چلا آ رہا ہے اپنے تدریجی انکشافات کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور جن لوگوں کی کمزوریاں اس تقریر کی محرک ہوئی ہیں ان کو کچھ کھلی ہوئی دھمکیاں بھی دی گئی ہیں اور مجموعی طور پر مسلم معاشرہ کو بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے پیش و عقب سے آگاہ رہو، معاشرے کی برائیاں اور بھلائیاں دونوں مشترک ہوتی ہیں۔ اگر کچھ لوگوں نے کوئی فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی اور دوسروں نے ان کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش نہ کی تو بالآخر وہ فتنہ نیک و بد سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اللہ و رسول کی اطاعت پر جم جاؤ، ان یہود کی روش سے بچو جو اپنے رسول کے سامنے تو دعوے کرتے کہ ہم نے مانا لیکن وہ مانتے نہیں تھے۔ پیغمبر کی دعوت حقیقی زندگی کی دعوت ہے اس پر دل و جان سے لبیک کہو۔ جو لوگ پیغمبر کی دعوت سن اور سمجھ کر بھی اس کے لیے اپنے دلوں کے دروازے نہیں کھولتے، ان کے اور ان کے دلوں کے درمیان خدا کا قانون حائل ہوجاتا ہے اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتا ہے يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ۔ خطاب عام، لیکن روئے سخن خاص لوگوں کی طرف : يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا کا خطاب اگرچہ لفظاً عام ہے لیکن روئے سخن انہی کمزور منافق لوگوں کی طرف ہے جن کا ذکر شروع سے چلا آ رہا ہے۔ قرآن کا عام انذار یہی ہے کہ کمزوروں اور منافقوں کی غلطیوں پر گرفت بھی فرماتا ہے تو ان کا ذکر بصیغہ عام ہی کرتا ہے کہ ان کا فضیحتا نہ ہو اور اگر وہ اصلاح قبول کرنا چاہیں تو قبول کرلیں۔ رہے اچھے لوگ تو وہ بہرحال اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ گویا دوسروں کی غلطیاں ان کے اپنے علم و عمل کو پختہ کرنے کے لیے مزید اسباب فراہم کردیتی ہیں۔ رسول سے اعراض اللہ سے اعراض کے ہم معنی ہے۔ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ میں فعل اپنے کامل معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی اللہ و رسول کی اطاعت اس طرح کرو جس طرح ایمان کا تقاضا ہے۔ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ ، یعنی رسول کی عین مجودگی میں، جن کہ دونوں کانوں سے اس کی دعوت سن رہے ہو، اس سے اعراض نہ کرو، وانتم تسمعون کے الفاظ ان کے رویہ کی شناعت کو ظاہر کر رہے ہیں کہ جب تم رسول کی موجودگی میں ٹھوکر کھاؤ گے تو کل کو تمہارا کیا حال ہوگا ؟ جو لوگ پورے دن کی روشنی میں گرتے ہیں ان کے پاس ان کے گرنے کے لیے کوئی عذر نہیں ہوسکتا۔ عنہ کی ضمیر رسول کی طرف لوٹتی ہے حالانکہ اوپر ذکر اللہ و رسول دنوں کا ہے۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے رسول سے اعراض اللہ سے اعراض کے ہم معنی ہے۔ جس نے رسول سے منہ موڑ لیا اس نے خدا سے منہ موڑ لیا۔ خدا سے تعلق اور اس کی اطاعت کا واحد ذریعہ اس کا رسول ہی ہے۔
Top